5 28

افغان امن معاہدہ’ خدشات وتحفظات کی زد میں

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کو جہاں دنیا سراہ رہی ہے، پاکستان کے سیاسی رہنماء یعنی حکومتی حلقے اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے وزیراعظم عمران خان کے وژن کی کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بھارت (بظاہر) خاموش ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر دکھائی دے رہا ہے، حالانکہ اس صورتحال پر وہ محاورہ بھی منطبق ہو رہا ہے کہ بنیاء کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے یعنی بھارت کی چپ میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت (بنیاء پن) ضرور پوشیدہ ہے جبکہ خود وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فریقین یقینی بنائیں کہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے خواہاں عناصر موقع نہ پاسکیں تاہم ابھی اس معاہدے کی سیاہی (روشنائی) خشک بھی نہ ہو پائی تھی کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک پریس کانفرنس میں معاہدے پر سوال اُٹھا دیئے اور پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کو انٹرا افغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی شرط لگا دی ہے، اس پریس کانفرنس کی نہایت خاص بات یہ ہے کہ اس موقع پر افغان سیاست میں بعد المشرقین رکھنے والے اور حالیہ انتخابات میں اشرف غنی کی جیت کو تسلیم نہ کر کے علیحدہ یعنی متبادل حکومت کیلئے اقدامات اُٹھانے والے عبداللہ عبداللہ بھی موجود تھے، عبداللہ عبداللہ کے بارے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے منفی رویہ اور بھارت کیساتھ انتہائی گہرے تعلقات کے حامی ہیں جبکہ اشرف غنی بھی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ترجیح بھارت کو ہی دیتے ہیں یوں اگرچہ بھارت بظاہر تو خاموش ہے مگر اشرف غنی کی پریس کانفرنس کے ذریعے اس نے اپنی پراکسی رجسٹر کروا دی ہے۔ اس موقع پر دونوں سیاسی حریفوں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا ایک دوسرے کی مخالفت کے باوجود اکھٹے ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ جس طرح افغان حکومت کو امریکہ نے طالبان کے کہنے پر اس معاہدے سے نکال باہر کیا، اشرف غنی کے بیان سے افغان حکومت نے اس کا جواب دیدیا ہے، تاہم اشرف غنی کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے طالبان نے دوبارہ حملوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے تازہ موقف سے اشرف غنی آگے چل کر انٹرا افغان گفت وشنید میں اپنی پوزیشن بھی مستحکم بنا کر اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں اور کچھ لو کچھ دو والی صورتحال میں زیادہ مفادات سمیٹنا چاہتے ہیں لیکن اس کے پیچھے عبداللہ عبداللہ کے ذریعے بھارت اپنی موجودگی کا احساس دلا کر مفادات کے حصول میں کوشاں ہے۔ اب اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ بھارت اس ساری صورتحال پر واقعی خاموش تماشائی بنا رہے گا تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی، اس لئے کہ بھارت نے افغان حکمرانوں اور پاکستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے اور وہاں اپنے مفادات کے حصول کیلئے بہت بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے جسے وہ اتنی آسانی سے ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا، اسلئے موجودہ صورتحال پر اس کی خاموشی کو مصلحت ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ بقول آفتاب مضطر
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
امریکہ طالبان معاہدے کے بعد اُبھرنے والی صورتحال پر اگرچہ یورپی یونین نے بھی مثبت تبصرہ کیا اور اسے تاریخی معاہدہ قرار دیا اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ افغانستان میں جامع امن عمل کی طرف اہم قدم ہے، تاہم اشرف غنی کی طرح ایران نے بھی اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں امن معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے افغانستان میں امریکہ کی غیرقانونی موجودگی کا جواز قرار دیدیا ہے، ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام صرف طالبان اور افغانیوں کے درمیان امن مذاکرات سے ہی ہوگا اور ایران افغانستان کی خودمختاری اور پائیدار امن سے متعلق ہر معاہدے کا خیرمقدم کرے گا۔ موجودہ صورتحال میں جب ہم اشرف غنی اور ایران کے ردعمل کو غور سے دیکھتے ہیں تو امن معاہدے میں بطورفریق افغان انتظامیہ کو شامل نہ کرنے کی شرط تو خود طالبان کی جانب سے عائد کی گئی تھی تاہم بعض حلقوں کے یہ خدشات اہمیت کے حامل ہیں کہ اس معاہدے کو سبوتاژ کیا جا سکتا ہے کیونکہ معاملہ صرف پانچ ہزار طالبان کی رہائی کا نہیں ہے بلکہ یہ قیدیوں کی دوطرفہ رہائی کا ہے کہ اس وقت ایک ہزار افراد طالبان کی قید میں بھی ہیں جن کی رہائی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے کہ کچھ برا ہوا تو زیادہ طاقت سے پھر افغانستان جائیں گے۔ یہ بیان بظاہر تو طالبان کو دی جانے والی دھمکی ہے تاہم بین السطور اس میں افغان حکومت کیلئے بھی سخت تنبیہ واضح دکھائی دے رہی ہے، اس لئے اب دیکھتے ہیں کہ مقررہ تاریخ تک دونوں جانب کے قیدیوں کی رہائی کی کیا صورتحال بنتی ہے اور معاہدہ عملی صورت اختیار کرتا ہے یا پھر ابتداء ہی میں ”سپنوں کا یہ محل” دھڑام سے گر کر مزید بربادیوں کی داستان بنتا ہے کیونکہ طالبان کے افغان فورسز (غیرملکیوں کو چھوڑ کر) کیخلاف دوبارہ حملوں سے ایک انتہائی خطرناک صورتحال اُبھرتی دکھائی دے رہی ہے، اب یہ افغان عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کیخلاف احتجاج کریں تاکہ افغانستان میں امن کے قیام کا خواب پورا ہوسکے اور خانہ جنگی دوبارہ نہ اُبھر سکے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں