2 56

پارلیمان سے بالا تر فیصلے

آئی ایم ایف مذاکرات سے پارلیمان کو آگاہ کرنے سے احتراز کے بعد حج فارم سے ختم نبوتۖ سے متعلق بیان حلفی کو حذف کرنے کے عاجلانہ اقدام جس میں بد نیتی کا عنصر خارج از امکان نہیں اور ساتھ ہی امریکا افغان امن معاہدے پر ایوان کو اعتماد میں نہ لینے کی شکایات سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ حکومتی فیصلے عوامی نمائندے نہیں کوئی اور کر رہے ہیں۔ کسی وزیر کی وزارت میں اہم اور نازک ترین فیصلے اگران کے علم میں لائے بغیر ہوں اور ایوان کو اہم ملکی معاملات اور فیصلوں کی کانوں کان خبر نہ ہو، اس ملک میں پارلیمان کا محض وجود ہی باقی ہوگا۔ اہم فیصلوں پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا حکومت کی ذمہ داری ہے، زیادہ بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ اہم اور نازک معاملات پارلیمان میں پیش کرنے کے بعد اس پر سیرحاصل بحث اور تجاویز سامنے آنے پر ایسی متفقہ قانون سازی یا اقدامات وفیصلے کئے جائیں جس کی ذمہ داری صرف حکومت اور متعلقہ وزارت کی بجائے پارلیمان پر ہو۔ عاشق رسول وزیر مذہبی امور کے دور میں اگر ختم نبوتۖ سے متعلق بیان حلفی ہی حذف کرنے کی نوبت آئے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مذموم قسم عناصر کس قدر بااثر اور دیدہ دلیر ہوگئے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں بلکہ قبل ازیں بھی اس قسم کی مساعی ہوتی رہی ہے جن سے ہوشیار رہنے اور اس قسم کے عناصر کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنانا حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی ذمہ داری ہے جس میں غفلت نہیں ہونی چاہئے۔
ہٹ دھرمی کی انتہا
خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومت اور حزب اختلاف میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد سترہ منٹ کے اجلاس میں لمحہ بھر کی بھی عدم خاموشی پتھروں اور ہتھوڑوں سے ڈیسک بجانے کا عمل اور شور شرابہ سے کسی طور نہیں لگتا کہ یہ ایک مہذب ایوان ہے اور نہ ہی یہ کوئی جمہوری فورم اور ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے اراکین دلیل سے اپنا موقف پیش کریں اور ان کی بات سنی جائے۔لاکھوں روپوں کے خرچ سے ہونے والے ایوان کے اجلاس میں اراکین کا یہ رویہ افسوسناک اور عوامی نمائندگی کی توہین کے مترادف ہے۔ عوام نے ان کو اسلئے ایوان میں نہیں بھیجا کہ وہ وہاں جاکر دو گروپوں کی صورت میں لڑیں اور کوئی فریق دوسرے فریق کے موقف کو سننے اور ایوان کے اجلاس میں مہذب انداز میں شرکت پر تیار نہ ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال کی حکومتی جماعت اور حزب اختلاف کی جماعتیں سبھی برابر کی ذمہ دار ہیں، جہاں تک فنڈز کی مساوی تقسیم کا تعلق ہے اصول وانصاف کا تقاضا ہے کہ ہر حلقے کے عوام کو مساوی اور برابر حق ملے اور اگر سب سے پسماندہ علاقوں کے عوام کے مسائل کی سنگینی اور مشکلات کے پیش نظر ان کو زیادہ یا خصوصی فنڈز دیئے جائیں تو اس کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ حکومت کے میرٹ اور انصاف کی پالیسی کا تقاضا بھی یہ ہے کہ فنڈز کی تقسیم منصفانہ اور عادلانہ ہو، اس ضمن میں حزب اختلاف کی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے، حزب اختلاف کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے اور دبائو ڈالنے کیلئے ایسا راستہ اختیار نہ کرے اور ایسے الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جو مناسب نہ ہوں۔
پلاسٹک کے تھیلوں کا پابندی کے باوجود استعمال
ہمارے نمائندے کے مطابق پشاور میں ممنوعہ پلاسٹک بیگز کی فروخت ختم نہ کی جا سکی۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے چند روز تک کارروائیوں کے بعد ایک بار پھر سے دکانداروں نے پلاسٹک بیگز کا استعمال اور فروخت شروع کردی ہے۔ کئی دکانداروں پر جرمانے بھی عائد کئے گئے تاہم اب تک پشاور میں پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی گزشتہ دور حکومت میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی اور ان کے کارخانوں کو بند کرنے کی مناسب مہلت کے بعد اس پر عملدرآمد کرانے کا عمل دوسرے دور حکومت کا نصف عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ویسے کا ویسے ہی ہونا حکومتی ناکامی اور انتظامیہ کی نا اہلی سے تعبیر نہ کیا جائے تو اور کیا قرار دیا جائے۔ ملک میں سنگین ہوتا ماحولیاتی کثافت اور پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال کی مختلف سنگین وجوہات ونتائج ماحول اور انسانی صحت پر اس کے اثرات کے اعادے کی ضرورت نہیں۔ جس طرح اسلام آباد میں پلاسٹک تھیلوں کے استعمال کی ممانعت یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات کئے گئے، گلگت ہنزہ میں پلاسٹک کے تھیلوں پر کامیابی کیساتھ پابندی لگائی گئی اس سے کسی طور یہ نہیں لگتا کہ ایسا کرنا کوئی مشکل امر ہے۔اس صورتحال میں تو پلاسٹک کے قابل تحلیل تھیلوں کے استعمال پر بھی پابندی لگانی پڑے گی تاکہ کسی قسم کے پلاسٹک تھیلے اس کی آڑ میں فروخت اور استعمال نہ کئے جاسکیں۔ کپڑے کے تھیلوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے مہم چلانے اور ان کی بڑے پیمانے پر تیاری واستعمال کو فروغ دینے میں اگربڑے بڑے سٹورز تعاون کریں تو کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کا رواج فروغ پا سکتا ہے اور متبادل وبہتر وپائیدار حل میسر آسکتا ہے۔
پولیس گردی
گلبہار پولیس کاشناختی کارڈنہ ہونے کا بہانہ کر کے خاتون کی گرفتاری اور اس معمولی غلطی پر ضمانت قبول کرنے کی بجائے عدالت سے رجوع کا مشورہ دینے کا اقدام نہ صرف بلاجواز ہے بلکہ اختیارات کے غلط استعمال اور تجاوز کے زمرے میں آتا ہے۔ پولیس کی کارکردگی اور پھرتی کسی سے پوشیدہ امر نہیں، پولیس اگر اس طرح کے کاموں میں اُلجھی رہے گی تو جرائم پیشہ عناصر اور منشیات فروشوں کیخلاف کارروائی کی ذمہ داری کون انجام دے گا۔ بہتر ہوگا کہ پولیس عوام کو تنگ کرنے کی بجائے اپنے فرائض پر توجہ دے ۔

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''