3 32

او آئی سی’ خواب سے بیداری کی طرف؟

اسلامی ملکوں کی تنظیم اوآئی سی کو سات ماہ بعد ہی سہی مگر آخرکار کشمیر کے حالات معلوم کرنے کا خیال آگیا گوکہ اس احوال پرسی کیلئے او آئی سی کو آزادانہ طریقے سے اصل مقام سری نگر جانے کی اجازت نہیں ملی یا او آئی سی نے ایسا کرنے میں دلچسپی ہی نہیں دکھائی مگر یہ بھی غنیمت ہے کہ اس ادارے کو ایک وفد آزادکشمیر بھیج کر بالواسطہ طور پر کشمیر کے حالات جاننے کا خیال آگیا جس کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کے نمائندے مسٹر یوسف الدوبے کی قیادت میں ایک وفد نے اسلام آباد اور مظفر آباد کا دورہ کیا۔ مظفرآباد میں وفد نے کئی ذمہ داران سے ملاقاتوں کے علاوہ چکوٹھی میں کنٹرول لائن کا دورہ بھی کیا۔ اس دوران وفد کو مقبوضہ کشمیر کے حالات کے بارے میں بریفنگ بھی دی جاتی رہی۔ او آئی سی کے نمائندے کی طرف سے ان خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا کہ تنظیم کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مسئلے کے پرامن حل کیلئے اپنا کر دار ادا کر رہی ہے۔ مسٹر یوسف الدوبے کو او آئی سی میں کشمیر رابطہ گروپ کے سربراہ کا نمائندہ خصوصی کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس دورے کی رپورٹ کشمیر رابطہ گروپ کو دی جائے گی جس کے بعد رابطہ گروپ یہ رپورٹ پڑھ کر الماری میں سجا دیتا ہے یا اس پر مزیر کارروائی کی جاتی ہے اس مرحلے پر اس بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا ممکن نہیں مگر ماضی کے آئینے میں مسلمانوں کی اس تنظیم کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ دلخراش حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پانچ اگست کے بعد جس عالمی تنظیم نے سب سے کم سرگرمی دکھائی وہ ستاون باوسیلہ ملکوں کی تنظیم او آئی سی تھی۔ ایک مدت تک تو یہ تنظیم مفقود الخبر ہو کر رہ گئی تھی یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اس تنظیم کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ حد تو یہ کہ تنظیم کے کارپردازان اور فنانسر تو پاکستان کے پاس بھی یہ فرمائش لیکر آئے تھے کہ مسئلہ کشمیر کو امت مسلمہ کا مسئلہ بنا کرپیش نہ کیا جائے۔ اس فرمائش کا پس منظر کیا تھا یہ ایک معمہ ہے، حقیقت میں اس کا مقصد ایک تو بھارت کو سُبکی اور شرمندگی سے بچانا تھا اور دوسرا یہ کہ کشمیر کے حوالے سے مسلمان دنیا کی رائے عامہ کو جذباتی ہونے سے بچانا تھا۔ یہ تو بھلا ہو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان، ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر محمد مہاتیر کا جنہوں نے مصلحت کی قبا تارتار کر کشمیر پر کھل کر حق وانصاف کا ساتھ دیکر ملت مرحوم کی کچھ نہ کچھ آبرو رکھ دی، وگرنہ اُمت کے تصورات سے روحانی اور معاشی فوائد اور تسکین حاصل کرنے والے ملک تو کشمیر کو اعلانیہ طور پر بھیڑیوں کے آگے پھینک کر نیرو بن کر بیٹھ گئے تھے۔ طیب اردگان، مہاتیر محمد کی طرف سے کشمیر پر زوردار موقف اپنانے کے بعد بھی او آئی سی کی بے حسی کا گلیشئر پگھل نہ سکا۔ یہاں تک کہ چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق او آئی سے کے کار پردازوں نے ملائیشیا کانفرنس کو او آئی سی کو بائی پاس کرنے اور ایک متوازی پلیٹ فارم تیار کرنے کی کوشش اور خواہش کا آئینہ دار سمجھ لیا جس کی وجہ سے پاکستان اس کانفرنس میں شریک نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ہی او آئی سی کے ایک خصوصی اجلاس کے حوالے سے باتیں سامنے آنے لگی تھیں۔ یہ اجلاس تاحال منعقد نہیں ہو سکا مگر اوآئی سی نے ایک وفد اسلام آباد اور مظفرآباد روانہ کر دیا۔ یہ وفد کسی ٹھوس موقف کا اظہار تو نہ کرسکا مگر عین ممکن ہے کہ وفد اپنی رپورٹ کی صورت میں او آئی سی میں حالات کی تصویرکشی کرے گا۔ اوآئی سی فلسطین میں اپنا کردار محدود کرتے کرتے ختم کر بیٹھی ہے۔ اب یہی رویہ کشمیر کے حوالے سے اپنایا گیا جس کے بعد پاکستان میں بھی اس ادارے کے بے مقصد اور فضول ہونے کا تاثر بہت گہرا ہوگیا ہے۔ بالخصوص پانچ اگست کے بعد ادارے کی غیر فعالیت اور بے حسی نے پاکستان اور کشمیری عوام کا اعتماد بری طرح مجروح کیا ہے اور اب بھارت کے اٹھارہ کروڑ مسلمان بھی اس ادارے سے مایوس ہو رہے ہیں کیونکہ یہ تنظیم بھارت میں مسلمانوں کیخلاف ہونے والے تشدد میں کشمیر کی ہی طرح گونگی بہری بن کر رہ گئی۔ جس سے او آئی سی سے مایوس ہو جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اوآئی سی کو اپنی اہمیت، افادیت اور ساکھ کو بحال کرنے کیلئے زمین پر نظر آنے والی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اب مسلمانوں کو درپیش مسائل پر صرف اجلاس منعقد کرنے اور تشویش، مذمت اور افسوس کا اظہار کرنے کے روایتی گھسے پٹے انداز اس ادارے کی بازیافت کا کام نہیں دے سکتے۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد اور وجود کا جواز بھلے سے تشویش اور مذمت ہی رہا ہو مگر آنے والے دنوں میں جس طرح مسلمان معاشروں کو چیلنج درپیش ہوں گے تو اس ماحول میں اوآئی سی نے اس کاغذی اور نمائشی کردار سے بڑھ کر کوئی نیا لائحہ عمل اختیار نہ کیا تو یہ تنظیم عرب کے صحراؤں میں ریت کے ذروں کی مانند بکھر جائے گی مگر مسلمان دنیا کی قیادت کا یہ خلا تادیر قائم نہیں رہے گا اور عین ممکن ہے کہ عالم عجم سے کوئی منہ پھٹ، گستاخ اور جرأت رندانہ کی صفت رکھنے والا قائد مسلمانوں کی اجتماعی آواز بن کر کسی نئے پلیٹ فارم کی بنیاد رکھ دے اور پھر مسلمان دنیا اس آواز کے گرد جمع ہوتی چلی جائے۔ اس سے پہلے او آئی سی کی قیادت کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  تمام تر مساعی کے باوجود لاینحل مسئلہ