2 74

خواتین کے حقوق، غزل وجواب آں غزل

اخلاق مرزا کے بقول ”عورت مارچ کے محاذ کی کنٹرول لائن پر ہلکی پھلکی گولہ باری جاری ہے البتہ بڑی جنگ کا خطرہ نہیں” اُدھر میڈیا کے محاذ پر لشکری اپنی اپنی کہہ لکھ رہے ہیں۔ ایک طرف سے اب بھی کہا جارہا ہے کہ ماروی سرمد کو منہ توڑ جواب دینے والے نے مردانہ غیرت اور قومی وقار کی حفاظت کی۔ اللہ اللہ یہ زمانہ آگیا ہے کہ گالی مردانہ غیرت اور قومی وقار کا ہتھیار ٹھہرا، کہنے لکھنے اور عرض کرنے کو بہت کچھ ہے۔ جس سماج میں ہم رہتے ہیں اس کا ہر رنگ نرالا ہے۔ مرحوم مولانا عبدالقادر آزاد یاد آگئے، ایک بار انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کو دائرہ اسلام سے باہر قرار دیتے ہوئے ان کے نکاح کو فسخ قراردیدیا تھا۔ ایک بینظیر بھٹو ہی کیا یہاں فتوؤں کی زد سے کون بچا، ہم اپنے ملک کی بہتر سالہ تاریخ کے اوراق کبھی اُلٹ پلٹ کر دیکھ لیں تو پانچ سات جلدوں پر مشتمل ”فتویٰ نامہ” کے نام سے ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ قبائلی طرزمعاشرت کا جدیدیت کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ عقابی روح قدامت پسندی کی حفاظت کرتی ہے، ہم اس قدامت پسندی کو مذہب کی چھتری فراہم کر دیتے ہیں۔ برصغیر بنیادی طور پر ہندو دھرم، بدھ مت اور جین مت کیساتھ سکھ دھرم کی سرزمین ہے، دیگر مذاہب باہر سے آئے خصوصاً تینوں آسمانی مذاہب۔ عشرہ بھر یا اس سے قبل مصری صحافی کمال عبداللہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چوتھے آسمانی مذہب زبور پر ایمان رکھنے والوں کی کل تعداد پندرہ سے بیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور یہ اسرائیل، لبنان، مصر اور اُردن میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اپنا مذہبی فہم نسل درنسل منتقل کرتے ہیں، مرد یا عورت کی دوسرے مذہب کے پیروکار سے شادی پر اس کی خاندانی مذہبی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ کمال عبداللہ نے لکھا تھا، زبوری جس تیزی سے کم ہو رہے ہیں2050تک مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ خیر یہ ایک جملہ معترضہ ہے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ برصغیر کے اپنے چار میں سے تین مذاہب ہندومت، بدھ مت اور جین مت کی تاریخ ہزاریوں کی تاریخ ہے، سکھ مت ابھی ایک ہزاری کا سفر طے نہیں کرسکا۔ بدھ مت ہندو دھرم کی تنگ نظری کے مقابلہ میں اپنے وقت کا ترقی پسند شعور تھا۔ پھر وہ بھی پاپائیت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سکھ دھرم میں خاص عصبیت تو ہے مگر کچھ حوالوں سے بدھ مت کی طرح تنگ نظری نہیں۔ لیکن برصغیر کا عمومی سماجی رویہ، ذات پات، مرد وعورت کے سماجی کردار کے حوالے سے گرونانک کی بنیادی تعلیمات کے برعکس معاملات ہیں۔
یہودیت، مسیحیت اور اسلام تینوں یہاں باہر سے آئے، اپنے اپنے وقت عصری شعور کیساتھ، برصغیر پاک وہند میں آنے والے یہ تینوں مذاہب مقامی سماجی رویوں، ذات پات اور چھوت چھات کیساتھ دیگر امور میں مقامیت سے متاثر ہوئے اور ہیں، ہمارے لاکھ انکار کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو جاتی۔ برہمنی سماج اور قبائلی معاشرت کے بعض رواجوں اور امور کو اسلام بنا کر پیش کرنے والوں کا مقصد سمجھ میں آتا ہے، وہ بھی پیروکاروں پر بالادستی کے خواہش مند تھے۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ یہ تینوں مذاہب جس خطے (بلاد عرب) سے برصغیر میں آئے وہاں آج بھی مذہبی اقدار ہی نہیں سماجی بود وباش اس سے بہت مختلف ہے جو یہاں مذہبی رہنما پیش کرتے اور ان پر عمل نہ کرنے کو خلاف شرع قرار دیتے ہیں۔ یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی صورتحال اسلئے بھی ہے کہ اس میں کچھ کچھ فرقہ وارانہ مفادات بھی ہیں۔ آپ صرف پردہ کے حکم کی مسلمہ فرقہ وارانہ عقائد میں موجود تعبیر کو ہی دیکھ لیجئے۔ مکتب خلاف اور مکتب امامت کی ذیلی شاخیں ایک تعبیر پر متفق نہیں، یہی وجہ ہے کہ سات آٹھ سال دینی مدرسوں کے داخلی ماحول میں بسر کر کے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے شخص کیلئے مدارس سے باہر کی دنیا اس کے شعور اور تعلیم سے یکسر مختلف ہوتی ہے، گو اب کچھ کچھ بہتری آرہی ہے مگر عمومی سوچ یہی ہے۔ جو ہمیں معلوم ہے اور پڑھایا گیا ہے وہی عین اسلام ہے باقی تو سارا کفر وشرک۔ عجیب بات یہ ہے کہ محراب ومنبر سے ”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے” والی حدیث نبویۖ پیش کرنے والے بھی جدید علوم کو کفریہ تعلیمات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ برصغیر کے مسلم حصہ کی ہزار برس پر پھیلی تاریخ کے اوراک اُلٹ کر دیکھ لیجئے گھڑی، لاؤڈ سپیکر، اشاعت کتب، تصویر بنوانا، عیسوی تقویم، پتلون شرٹ کے لباس اور دوسری بہت ساری چیزیں اول اول حرام قرار پائیں، اب بھی ہم ہر بات، کام اور تحریر کے پیچھے یہود وہنود کی سازش کھوج کر نکال لانے والے ماہرین سے مالامال ہیں۔ 8مارچ کو تو یہ بھی ہوا کہ عورت آزادی مارچ کیخلاف اخلاقیات پر لاٹھی چارج کرنے والے حیا مارچ کے نام پر خواتین کے ایک طبقے کو سڑکوں پر لے آئے اور اس حیا مارچ میں مرد بھی شریک تھے، عورت آزادی مارچ بغاوت قرار پایا مگر حیا مارچ مذہبی اقدار کے مطابق۔ فقیر راحموں نے سڑکوں پر دکھائی دینے والی خواتین بارے چند بزرگوں کے نئے پرانے ارشادات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا شاہ جی یہ کیا ہے؟۔ عرض کیا ”اسب غول تے کج ناپھرول” عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شدت پسندی کسی طرف سے بھی ہو بگاڑ بڑھے گا۔ بچیوں کی تعلیم، وراثت میں حصہ دینے، شادی کیلئے ان کی آمادگی اور ملازمت وغیرہ میں فرائض نبھانے کی ضرورت ہے، بیٹی کی پیدائش پر دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں، زندگی کی گاڑی مرد وخواتین مل کر چلاتے ہیں۔ اچھا تو کیا اگر دونوں کی ایک جیسی دیکھ بھال نہ ہو تو گاڑی درست انداز میں چل اور سفر طے کر سکتی ہے؟ بس فقط اس سوال پر غور کیجئے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات