2 75

تحریک انصاف کا یہ وعدہ کیسے پورا ہوگا؟

وزیر خارجہ اور تحریک انصاف کے مرکزی وائس چیئر مین مخدوم شاہ محمود قریشی کے مطابق تحریک انصاف صوبہ جنوبی پنجاب کے لئے آئینی ترمیم کا بل پیش کرے گی۔ صوبہ پنجاب کے جنوبی حصہ میں الگ صوبے کے قیام کی تحریک 1980ء کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی’ پہلی بار پارلیمانی سطح پر پیپلز پارٹی نے الگ صوبہ کے قیام کے لئے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں ایک قومی کمیشن بھی قائم کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے اسی 2008ء سے 2013ء کے درمیان اس حوالے سے اہم پیش رفت بھی ہوئی مگر اسی پارلیمانی سیشن میں سرائیکی صوبہ کے قیام کا راستہ روکنے کے لئے مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی سے دو قرار دادیں منظورکروا لیں ان قرار دادوں کے مطابق صوبہ جنوبی پنجاب کے ساتھ بہاولپور کا صوبہ بھی بننا چاہئے۔ پچھلے سال( ن) لیگ نے اس قرار داد کی روشنی میں قومی اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا جو زیر التواء ہے۔ تحریک انصاف کی ایک اتحادی جماعت ق لیگ جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں صوبہ جنوبی پنجاب کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتی رہی اب جنوبی پنجاب اور بہالپور کے نام سے دو صوبوں کے قیام کی حامی ہے۔ ق لیگ کی طرف سے وفاقی کابینہ میں موجود وزیر طارق بشیر چیمہ کے اس حوالے سے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ملک میں آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے کے جنوبی حصے میں الگ صوبے کے قیام کی تحریک کا اپنا تاریخی پس منظر ہے۔ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں جب الگ صوبے کی تحریک کا آغاز ہوا تھا توبہاولپور صوبہ تحریک کے قائدین نے اپنی تنظیم کو سرائیکی صوبہ محاذ میں ضم کرتے ہوئے سرائیکی بولنے والی آبادی کے اضلاع پر مشتمل صوبے کے قیام کی تحریک کا ڈول ڈالا تھا۔ تحریک انصاف اوراس کی مرکزی حکومت کی طرف سے بدھ کو جو اعلانات کئے گئے یا اس حولے سے وزیر خارجہ نے جو گفتگو کی اس سے معاملات سیدھے سبھائو آگے بڑھنے کی بجائے الجھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اولاً یہ کہ کیا محض تین ڈویژنوں ملتان’ بہاولپور اور ڈی جی خان پر مشتمل صوبہ 40برسوں سے صوبہ بنائو تحریک چلانے والوں کے لئے قابل قبول ہوگا۔ ثانیاً یہ کہ تحریک انصاف کی اتحادی ق لیگ کے بعض رہنما اپنے مطالبہ کو لے کر 1977ء کے بعد کے آباد کاروں اور قدیم آبادی کے درمیان تنازعات پیدا کرنے کی جذباتی کوششوں میں ہیں ان کا تدارک کیسے ہوگا۔ ثانیاً یہ کہ نئے صوبے کے قیام کے لئے اسی صوبے کی صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کا صوبے کی تقسیم پر متفق ہونا ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے وقت چند تحفظات کی بناء پر یہ حق قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ ایوان کو دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کا فیصلہ صوبائی اسمبلی پر چھوڑا تھا۔ موجودہ حالات میں جبکہ تحریک انصاف کو پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہے اور یہی صورت قومی اسمبلی میں بھی ہے جبکہ سینیٹ میں حکومت اقلیت میں ہے تومرحلہ وار قانون سازی جس کا آغاز پنجاب اسمبلی سے ہونا ہے کیسے ممکن ہوگی؟۔ مسلم لیگ (ن) دو صوبوں (جنوبی پنجاب اور بہاولپور) کے قیام کے لئے 2012ء پنجاب اسمبلی سے منظور کروائی گئی اپنی قرار داد سے پیچھے کیسے ہٹے گی۔ ق لیگ اس مسئلہ کو مرنے مار دینے کا معاملہ بنا چکی وہ کیسے اعتدال کی سیاست پر آمادہ ہوگی؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے صرف نظر کرکے آگے بڑھنا مشکل بھی ہے اورمسائل پیدا کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ یہ امر بھی بہر طور مد نظر رکھنا ہوگا کہ خود صوبے کے قیام کی تحریک چلانے والے کیا چاہتے ہیں اور کیا وہ سرائیکی بولنے والے علاقوں پر مشتمل قومی صوبے کے قیام سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہوں گے؟۔ یہ بجا ہے کہ تحریک انصاف کے منشور میں صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام شامل ہے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے بننے والی ایک جماعت تحریک انصاف میں ضم ہی اسی شرط پر ہوئی تھی تب ہونے والے معاہدہ میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے 100 دن کے اندر صوبے کے قیام کا روڈ میپ دے گی پونے دو سال بعد اس حوالے سے جو اعلانات سامنے آئے ہیں وہ روڈ میپ سے زیادہ اختلافات کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ عرض کرنا از بس ضروری ہے کہ تحریک انصاف اور حکومت کے کاندھوں پر بھاری مگر نازک ذمہ داریاں ہیں انہیں اپنا انتخابی وعدہ بھی پورا کرنا ہے اور اس امر کو بھی یقینی بنانا ہے کہ کوئی تنازعہ نہ پیدا ہونے پائے جس کے امکانات زیادہ ہیں۔ دو تہائی اکثریت کے بغیر ہونے والے اعلانات قانون سازی کے مرحلہ میں کیا نتیجہ دیں گے؟ پیپلز پارٹی اگر قومی اسمبلی میں نئے صوبے کے لئے تعاون کر بھی دے تو اصل معاملہ اس سے قبل پنجاب اسمبلی میں طے ہوتا ہے جہاں پی پی پی کے پاس 7ووٹ ہیں۔ زیادہ مناسب یہ ہوتا کہ ان اعلانات سے قبل تحریک انصاف قومی و پنجاب اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت کرلیتی۔ مشاورت کے بعد ہونے والے اعلان کا سب ساتھ دیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا حکومت اپنے اقدامات کے نتائج سے پیشگی آگاہ ہے اور وہ کسی بھی طرح کی ناکامی کا ذمہ دار ان سیاسی جماعتوں کو قرار دے گی جو جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے لئے الگ الگ صوبہ بنانے کامنشور رکھتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان اعلانات سے رائے عامہ کی ہمدردیاں مل جائیں گی مگر اصل مسئلہ تو قانون سازی کے مراحل ہیں وہ کیسے طے ہوں گے؟ حکومت کو نہ صرف ٹھوس اور واضح موقف کا اعلان کرنا ہوگا بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ اس کے اعلان کو لے کر کوئی شخص یا جماعت بہاولپور میں نفرت کی سیاست نہ کرنے پائے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟