5 36

مٹی کا دیا

جب بھی کسی قبرستان جانے کا اتفاق ہوا شدیدحیرت میں گم ہوگیا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی سٹیٹس انسان کا پیچھا کرتا رہتاہے ۔امیری ،غریبی اور طبقاتی تضاد اس جگہ بھی نمایاں ہے جہاں مٹی میں مل کر سب مٹی ہو جاتے ہیں آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کمال کے شاعرتھے، ان کی شاعری غم ،یاسیت ،بے بسی، بے کسی اور امید ناامیدی کا حسین امتزاج تھی ان کا ایک شعرہے
ظفریہاں پہ کوئی آئے کیوں؟
کوئی چار پھول چڑھائے کیوں؟
بجھی شمع آکر جلائے کیوں؟
میں وہ بے کسی کا مزارہوں
صرف یہ نوحہ بہادرشاہ ظفرکا ہی نہیں قبرستانوںمیں جاکر دیکھیں سینکڑوں ٹوٹی پھوٹی،خستہ حال دھول اڑاتی قبریں اپنی بے بسی کی داستان سناتی ہیں ۔کبھی غورکیاہے قبرستان ایسے لوگوںسے بھرے پڑے ہیں جو یہ کہتے اور سمجھتے تھے دنیا ان کے بغیر نہیں چل سکتی آج ان کی آخری آرام گاہ حسرتوں کا مرقع ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی قبروںکی خوبصورتی نے دنیا کی آسائشوںکو مات دیدی ہے مقدس اور برگذیدہ ہستیوںکا ذکر نہیں ان کی مثال اس لئے نہیں دی جارہی کہ وہ بے مثال ہیں بات دنیا اور دنیا داروںکی ہو رہی ہے کہنے والے کہتے ہیں دنیامیں سب سے خوبصورت قبر ممتاز محل کی ہے جسے ان کے محبوب شوہرشاہ جہاں نے تاج محل بنواکر امر کردیا تاج محل کی خوبصورتی کو ایک طلسم قراردیا جاتاہے جس کو دیکھنے والا مبہوت رہ جاتاہے اس کا شمار عجائبات ِ عالم میں اس لئے ہوتاہے کہ اس کوئی نظیرہے نہ مثال۔آگرہ میں تو ایک تاج محل تعمیرہوا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ لاہور، کراچی،حیدرآباد اور کئی بڑے شہروں کے قبرستانوں میں کئی چھوٹے بڑے تاج محل موجود ہیں جہاں امیر اور غریب کا فرق کھل کر سامنے آگیاہے جس سے بخوبی شہروں اور دیہاتوں کے” شہر ِ خموشاں” میں بھی طبقاتی فرق کا شدت سے احساس ہو نے لگتاہے شاید اسی لئے مرزا غالب نے کہا ہوگا
ہوئے مرکے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق ِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
آج مرزا غالب زندہ ہوتے تو دیکھتے بڑے شہروں کے قبرستانوں میں بھی VIPکلچر فروغ پا چکاہے کراچی کے قبرستانوں میں قائم مقبرے نما قبروںمیں ایسی بجلیاں روشن کردی گئیں ہیں جن پر لوڈشیڈنگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا یہ قبریں سرشام ہی جگمگ جگمگ روشن روشن ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف بیشتر غریبوں کی قبریں بھی موجود ہیں جو شکستہ اورٹوٹی پھوٹی ہیں جن پر شاید ہی کسی نے پورے 24 گھنٹوں میں فاتحہ پڑھی ہو ان قبروں کے مکین اپنی بخشش کیلئے شاید اپنے پیاروں کے منتظر بھی ہوں لیکن ان کی قبروںکی حالت دیکھ کر لوگ دنیا کی بے ثباتی کے یقینا قائل ہو جاتے ہوں گے۔ ویسے تو ایک مؤرخ نے لکھا ہے مغلیہ دورنے بر صغیرکو تین چیزوں سے نوازاہے اردو زبان،مرزا غالب اور تاج محل۔ لیکن آج کا مؤرخ جب بھی لاہور اورکراچی کی تاریخ رقم کرے گا یہ ضرور لکھے گا کہ ان شہروں میں بھی کئی چھوٹے بڑے تاج محل موجود ہیں۔ مغل بادشاہ شاہجہاں کے بنائے تاج محل کی وجہ ٔ شہرت ایک مقبرہ ہے آگرہ کے” تاج” اور کراچی لاہورکے” محل” میں کئی قدریں مشترک ہیں کچھ نہ کچھ یکسانیت بھی ہوگی یہاں بھی اپنے پیاروں کی یاد میں ایسے ایسے خوبصورت مقبرے بنائے ہیں کہ عقل حیران و پریشان رہ جاتی ہے کہ آج مادیت پرست معاشرے اور نفسا نفسی کے دور میں بھی لوگوں نے اپنے دل کے قریب رہنے والوںکو یاد رکھنے کا بہانہ بنا لیاہے۔کراچی میں ڈیفنس فیز فورگزری کا قبرستان اس لحاظ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاںVIPکی قبریں ہیںاس قبرستان میں چند قبریں ایسی بھی ہیں انتہائی جدید انداز کی تراش خراش والے جاپانی اسٹائل کی مشابہت والے لکڑی کے پائپوں اور شیڈ بھی بنے ہوئے ہیں جبکہ قبروں پر لگے کتبے بھی انتہائی قیمتی پتھرسے بنے ہوئے ہیں ایک قبرکے سرہانے قیمتی لکڑی کا امپورٹڈ بینچ بھی موجودہے جہاں بیٹھ کر سکون سے فاتحہ خوانی یا تلا وت کی جاسکتی ہے شاید دنیاکو یہ بتانا مقصود ہے کہ مرحوم معاشرے میں اعلی ٰ حیثیت کا مالک تھا اور اس کے لواحقین بھی کھاتے پیتے لوگ ہیں اس کے برعکس جہاں جہاں غریبوںکی بستیاں ہیں یا جہاں متوسط طبقہ آبادہے وہاں قبروں اور قبرستانوں کا کوئی پرسان ِ حال نہیں اینٹ گاڑے سے بنی ، زمین میں دھنسی یا ٹوٹی پھوٹی قبریں اور ان پر اگی خودروگھاس،جڑی بوٹیاں عجیب لگتی ہیں کہیں سیوریج بندہونے سے قبرستان زیر ِ آب آ جاتے ہیں تو کہیں منشیات استعمال کرنے والوں نے اسے اپنی اماج گاہ بنا رکھاہے ایسے قبرستان جرائم پیشہ افرادکی پناہ گاہیں بھی ہیںقبضہ گروپ الگ جو قبریں مسمارکرکے مکان پلازے اور دکانیں بنا لیتاہے ہمارے ملک کے بہت سے قبرستان ایسی کئی ، کہی ان کہی داستانیں سناتے ہیں ان قبرستان کے مکین کسی کو حال ِ دل سنا سکتے تو یہ ضرور کہتے ہم یہاں بھی بے سکون ہیں ایک طرفVIP قبرستان اور دوسری طرف غریبوں کی آبادیاں جہاں جیتے جی مسائل ختم ہوتے ہیں نہ مرنے کے بعد اس سے چھٹکارا ملتاہے اس تضادکو دیکھ کر یہ احساس ہوتاہے مرنے کے بعد بھی سٹیٹس پیچھا کرتا رہتاہے
اب توگھبرا کر یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرنے کے بھی چین نہ پایا توکدھرجائیں گے

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟