2 79

سعودی اقامہ ہولڈرز کی مشکلات

دو روز قبل سعودی حکومت نے کورونا وائرس سے بچائو کیلئے پاکستان سمیت متعدد ممالک کے اقامہ ہولڈرز کو ہدایت کی تھی کہ 72 گھنٹوں کے اندر اندر سعودی عرب پہنچ جائیں’ سعودی عرب کی جانب سے اس ڈیڈ لائن کے بعد سعودی اقامہ ہولڈرز کی بڑی تعداد ایئر لائنز کے دفاتر کے سامنے جمع ہو گئی ‘ ابتدائی طور پر یہ خبر بھی سامنے آئی کہ پی آئی اے کی تمام پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں اور سعودی عرب کیلئے صرف سعودی ایئر لائن ہی استعمال کی جا سکتی ہے چونکہ 40لاکھ کے قریب پاکستانی سعودی عرب میںکام کرتے ہیں اسلئے معمول کی چھٹی پر بھی ہزاروں لوگ آئے ہوتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو محض 72گھنٹوں میں اور وہ بھی صرف سعودی ایئر لائن کی مخصوص پروازوں کے ذریعے سعودی عرب منتقل کرنا آسان کام نہ تھا’ مزدور طبقہ کو چونکہ اپنے ویزوں کے کینسل ہونے کا خدشہ تھا اسلئے وہ طے شدہ کرایہ سے زیادہ اداکرنے پر بھی راضی تھے’ یوں موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان دو تین دنوں میں ٹریول ایجنٹس مافیا سرگرم ہوگیا اور پی آئی اے کا سعودی شہر ریاض کیلئے معمول کا ٹکٹ پچاس ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ روپے میں فروخت ہونے لگا جبکہ 80ہزار میں ملنے والا ٹکٹ 2لاکھ روپے تک پہنچ گیا۔ پاکستانی حکام کی طرف سے اس پیدا شدہ صورتحال کا بروقت نوٹس لیاگیا اور سعودی حکام کیساتھ معاملات کو خوش اسلوبی کیساتھ طے کرنے کی کوشش کی گئی’جبکہ سعودی عرب کی طرف سے ورک ویزے سے متعلق اقامہ ہولڈرز میں پایا جانے والا ابہام دور کرتے ہوئے کہا گیا کہ کورونا وائرس کے پیش نظر سعودی حکومت مختلف اقدامات کر رہی ہے جس میں اقامہ رکھنے والوں کی وطن واپسی سمیت ویزا پالیسی بھی شامل ہے۔ جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ جب تک کورونا وائرس کے حوالے سے حالات بہتر نہیں ہو جاتے اس وقت تک عارضی طور پر کوئی نیا ویزا جاری نہیں کیا جائے گا جبکہ اقامہ ہولڈرز کی واپسی کیلئے گنجائش پیدا کرتے ہوئے پی آئی اے کو بھی سعودی عرب کیلئے پروازوں کی اجازت دی گئی جس میں 10خصوصی جبکہ 18معمول کی پروازیں چلائی جائیں گی اور پہلے سے طے شدہ کرایہ ہی وصول کیا جائے گا۔ اس منصوبہ بندی کے بعد پاکستان نے 25مارچ تک مہلت دینے کیلئے سعودی حکومت کو بھی خط لکھ دیا ہے پاکستانی حکام کی جانب سے سعودی حکام کیساتھ مسلسل رابطوں کا ہی نتیجہ ہے کہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سعودی حکومت کی طرف سے اقامہ ہولڈرز کے ویزے منسوخ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ پاکستانی حکومت کی درخواست پر سعودی حکومت نے مثبت اقدام اُٹھایا ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے ‘ تاہم مناسب آگاہی اور رہنمائی نہ ہونے کی بنا پر اقامہ ہولڈرز کی صورتحال یہ ہے کہ وہ ویزا منسوخی کے ڈر سے علی الصبح ایئر لائنز کے دفاتر میں جمع ہو جاتے ہیں ‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق 15ہزار سے زائد سعودی اقامہ ہولڈرز اپنے سامان کیساتھ مختلف ایئر لائنز کے دفاتر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جو پاکستانی اس وقت عمرہ کیلئے سعودی عرب میں موجود ہیں’ ان کی پاکستان واپسی بھی اہم مسئلہ ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق اس وقت سعودی عرب سے پاکستان واپس آنے کے خواہش مندوں کی تعداد 5ہزار سے زائد ہے’ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر لاک ڈائون سے قبل مسافروں کو ان کی منزل پر پہنچانے کیلئے 25مارچ تک کا وقت دیا جائے ۔ ہم سمجھتے ہیں حالات اس قدر گمبھیر نہیں ہیں جس طرح سے بعض حلقوں کی جانب سے سنسنی پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ویزوں کی منسوخی سے متعلق افواہیں پھیلا کر اس کاروبار سے منسلک طبقہ چند پیسوں کی خاطر لوگوں کی مجبوریوںکا ناجائز فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اس دوران حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقامہ ہولڈرز کو حالات کے رحم وکرم پر نہ چھوڑے کیونکہ بیرون ممالک کام کرنے والوں کی ملک کی ترقی میں بہت خدمات ہیں، پاکستان کی معیشت میں بیرون ممالک کام کرنے والوں کا اہم کردار ہے’ ان کی بھیجی ہوئی رقم ہمارے ریونیو میں اضافے کااہم ذریعہ ہے ‘ اب اگر وہ مشکل سے دوچار ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ انہیں بے یارومددگار نہ چھوڑے ‘ اقامہ ہولڈرز کیلئے علیحدہ سے ایک کائونٹر بنایا جائے اورفری فون کی سہولت فراہم کرنے کیساتھ ساتھ انہیں احساس دلایا جائے کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ تنہا نہیں ہیں اور نہ ہی حکومت ان کے مسائل ومشکلات سے غافل ہے’ بالخصوص جب سعودی حکومت بھی اقامہ ہولڈرز کے ویزے منسوخ نہ کرنے کی یقین دہانی کرا چکی ہو’ ایسے حالات میں اقامہ ہولڈرز کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عجلت بازی میں طے شدہ کرایہ سے زائد میں ٹکٹ کے حصول کی بجائے اپنی حکومت کے اقدامات پر تسلی رکھیں کیونکہ ڈیڈ لائن کے باوجود حکومتوں کے دو طرفہ معاملات میںبہرصورت گنجائش موجود ہوتی ہے ،حکومت کی طرف سے مسلسل نگرانی اور ذمہ داری کامظاہرہ اس وقت تک کیا جانا چاہئے جب تک کہ تمام اقامہ ہولڈرز کی سعودی عرب باعزت واپسی یقینی نہیں بنا لی جاتی۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟