2 83

ڈاکٹر مبشر حسن’ ایک عہد تھا تمام ہوا

یہ سال 1967ء کی بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے اہل دانش اور دیگر شخصیات کیساتھ رابطوں اور صلاح مشورے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے جا رہے تھے۔ نئی سیاسی جماعت کے قیام کیلئے ہونے والے مشوروں میں جن چند شخصیات کو خصوصی اہمیت حاصل تھی ان میں ڈاکٹر مبشر حسن’ جے اے رحیم’ میاں محمود علی قصوری’ معراج محمد خان’ محمد حنیف رامے’ بابائے سوشلزم شیخ رشید شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس کیلئے لاہور کا انتخاب کیا گیا، اس وقت مغربی پاکستان کے دارالحکومت کے طور پر لاہور کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی مگر زندہ دلان کے اس شہر کا کوئی ستارہ ہوٹل اپنا ہال پیپلز پارٹی کے کنونشن کیلئے دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ صوبائی وزارت داخلہ کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر لاہور نے ہوٹلوں اور چند ایک دستیاب ہالوں کے مالکان وانتظامیہ کو حکومت مخالف مہم کیلئے جگہ نہ دینے کیلئے کہا تھا۔ ان حالات میں ڈاکٹر مبشر حسن نے تجویز دی کہ تاسیسی کنونشن ان کی اقامت گاہ گلبرگ لاہور میں منعقد کرلیا جائے، پھر یہ تاسیسی اجلاس انہی کے گھر پر ہوا جبکہ پیپلز پارٹی کا پہلا ورکرکنونشن ہالہ سندھ میں مخدوم طالب المولیٰ کے ہاں منعقد ہوا تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کی منشور کمیٹی کے رکن تھے، ان کے گھر پر ہی پارٹی کے قیام اور منشور کا اعلان ہوا اور پھر ”طاقت کا سرچشمہ عوام” کے نعرے نے پذیرائی حاصل کی۔ بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد نے مختصر عرصہ میں پارٹی کو مغربی پاکستان کی مقبول ترین جماعت بنا دیا۔ 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی نے 83 نشستیں جیت لیں۔ پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرلی (یاد رہے کہ ون یونٹ یحییٰ خان کے لیگل فریم آرڈر کے تحت ختم کردیاگیا تھا ون یونٹ سے قبل کے صوبے بحال کردئیے گئے) سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پیپلز پارٹی کو نئے پاکستان میں اقتدار ملا’ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کے اس اولین دورحکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ 1972ء میں پیش کئے گئے اس اولین بجٹ کو آج بھی مثالی بجٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بعدازاں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی بنے’ نیشنلائزیشن کی پالیسی کے خالق وہی تھے۔ تب کہا جاتا تھا کہ بھٹو صاحب سیاسی وریاستی امور میں ان سے لازمی مشاورت کرتے تھے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی یا بھٹو سے اسلئے ناراض ہوئے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ جو بڑے بڑے سردار، تمن دار، جاگیر دار اور مخادیم جوق درجوق پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں انہیں شامل نہ کیا جائے’ کیونکہ اگر یہ بات درست ہوتی تو پھر وہ بھریا میلہ چھوڑ کر پارٹی سے الگ ہوتے مگر ایسا نہیں ہے وہ پیپلز پارٹی کے اولین دوراقتدار کے د وران حکومت اور پارٹی کی اہم ترین شخصیت شمار ہوتے تھے، پارٹی سے ان کی دوریاں بھٹو مخالف قومی اتحاد کی تحریک کے د وران بڑھیں، یہ وہی تحریک ہے جس کے د وران اعتراز احسن اور سردار شوکت حیات خان سمیت چند راہنما پارٹی سے الگ ہوئے۔ اعتراز احسن تو اس وقت پنجاب کے وزیر بھی تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن اس دور میں پارٹی سے الگ تو نہ ہوئے لیکن عملی طور پر غیرفعال ہوگئے، اگلے برسوں میں ایک مرحلہ پر جب کوثرنیازی اور کمال اظفر وغیرہ نے پروگریسو پیپلز پارٹی کے نام سے اپنا الگ دھڑا منظم کرنے کیلئے ہاتھ پائوں مارے تو کوثر نیازی نے ڈاکٹر مبشر حسن سے ملاقات کرکے انہیں اس نئے دھڑے کی قیادت کرنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول نہ کی۔
غلام مصطفی جتوئی نے بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد پیدا ہونے والے اختلافات کے نتیجے میں جب نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی تو دعوت کے باوجود وہ اس میں شامل نہ ہوئے، اسی طرح معراج محمد خان جب تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل بنے اور ان سے مشاورت کیلئے آئے تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں عملی سیاست میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ اس مشاورتی ملاقات کو جس میں عمران خان بھی شامل تھے ان کی تحریک انصاف میں شمولیت کا نام دیا جا رہا ہے یہ بھی درست نہیں البتہ بھٹو صاحب کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو نے جب وطن واپسی کے کچھ عرصہ بعد پی پی پی (شہید بھٹو گروپ) کے نام سے اپنی الگ جماعت بنائی تو وہ نہ صرف مشاورتی عمل میں شریک رہے بلکہ آگے چل کر پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی بنے۔ چند دن قبل وہ مختصر علامت کے بعد ساڑھے اٹھانویں سال کی عمر میں انتقال کرگئے تو ان کی شخصیت کا حوالہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی’ وزیر خزانہ ہونا اور سیکرٹری جنرل ہونا ہی بنا۔ یہ ویسا ہی حوالہ ہے جیسا ملک غلام مصطفی کھر کا ہے لگ بھگ 13سیاسی جماعتیں بدلنے کے بعد وہ اب بھی کسی نئی جماعت میں شامل ہوں تو خبر یہی ہوتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست اور پی پی پی کے بانی راہنما عوامی تحریک یا تحریک انصاف وغیرہ میں شامل ہوگئے۔ پچھلی دو دہائیوں میں وہ پیپلز پارٹی کے شدید ناقد رہے۔ ان کی آخری سیاسی وابستگی (وفات تک) پیپلز پارٹی( ش ب) یا غنویٰ بھٹو گروپ ہی تھی مگر معتبر حوالہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت بنا۔ ترقی پسند شعور کے حامل دانشور’ ادیب اور سیاستدان ڈاکٹر مبشر حسن کا خاندان بھی 1947ء کے بٹوارے کے وقت ہجرت کرکے لاہور پہنچا، خاندان کا ایک حصہ ساہیوال میں مقیم ہے، ان کے بھائیوں اور عزیزوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں سے نام کمایا، وہ دنیائے سرائے سے رخصت ہوگئے، حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات