2 88

تحمل کے ساتھ انقلابی اقدامات کیجئے

امر واقعہ یہ ہے کہ وفاق اور چاروں صوبوں کو کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال میں مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ رابطوں اور معلومات میں تبادلوں کے فقدان کی وجہ سے متاثرین کی درست تعداد کے حوالے سے موجود ابہام نے افواہوں کو جنم دیا۔ شہریوں خصوصاً سوشل میڈیا صارفین پر اس حوالے سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایسی کسی بات کو آگے بڑھانے سے اجتناب کرنا ہوگا جس سے خوف و ہراس پھیلے۔ چند دن کی تاخیر کے بعد بالآخر سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے درمیان بین الصوبائی ٹریفک کو محدود کرنے پر اتفاق رائے مناسب اقدام ہے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو بھی موجودہ صورتحال میں دو صوبوں میں ہونے والے اقدامات کی پیروی کرنا ہوگی۔ خیبر پختونخوا میں کورونا سے متاثر دو مریضوں کے جاں بحق ہونے سے خطرات کی نشاندہی کرنے والے طبی ماہرین کا مؤقف درست ثابت ہوا ملک بھر میں 67نئے مریضوں کے سامنے آنے پر مجموعی تعداد 304ہوگئی ہے مگر اس حوالے سے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ صوبوں اور وفاق کے د رمیان معلومات کے عدم تبادلے سے کہیں حقیقت مخفی تو نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بعض اقدامات صوبوں کو مشترکہ طور پر کرنا ہوں گے۔ سندھ کے بعد اگلے روز پنجاب نے مزید کچھ اقدامات اٹھائے ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص یہ دیکھنا ہوگا کہ حالات اگر مزید گمبھیر ہوتے ہیں تو اٹھائے جانے والے اقدامات سے متاثر ہونے والے نچلے طبقات کے خاندانوں کے لئے حکومتیں کیا کرسکتی ہیں اس نازک مرحلہ پر متمول طبقہ کو قومی ذمہ داری نبھانا ہوگی جیسا کہ بدھ کو سندھ حکومت نے اپنے صوبے کے بڑے سرمایہ کاروں سے اپیل کی کہ وہ ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے ساتھ کورونا ٹیسٹنگ کٹس کی فراہمی کے لئے تعاون کریں۔ ہماری دانست میں ملک بھر کے خوشحال ترین خاندانوں کو اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر موجودہ حالات میں غریب خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ حکومت اور عوام مل کر ہی مشکل ترین صورتحال سے نکل سکتے ہیں۔ اس امر کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہوگا کہ اس وقت کورونا کے اثرات نے دنیا کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یورپی ممالک نے اپنی سرحدیں 30روز کے لئے بند کردی ہیں۔ اب تک دنیا میں چین کے علاوہ 216632 متاثرین رپورٹ ہوئے۔ دنیا بھر میں ریاستیں اپنی اپنی بساط سے بڑھ کر اقدامات میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں ہمیں محض تسلیوں سے وقت گزارنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ داخلی طور پر جو اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں ان کے حوالے سے فیصلہ کرلیا جانا ضروری ہوگا۔ یہاں اس امر کی طرف متوجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ کورونا وائرس پر بھدی سیاسی بیان بازی افسوسناک ہے۔ سیاست دانوں کے پاس بہت وقت پڑا ہے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کے لئے موجودہ حالات میں صرف حکومت کی مخالفت کو بیان بازی کاحصہ بنا کر معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان دوریاں پیدا کرنے سے گریز کیا جانا ضروری ہوگا۔ اس امر کو پس پشت نہ ڈالا جائے کہ اس وقت نہ صرف باہمی سیاسی تعاون کی اشد ضرورت ہے بلکہ معاشرے میں دوریاں پیدا کرنے کی بجائے یہ احساس اجاگر کرنا ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی مدد سے ہی ہم ان مشکل حالات سے نکل سکتے ہیں ملک کی معروف دینی سیاسی جماعت’ جماعت اسلامی کا یہ اعلان قابل ستائش ہے کہ جماعت اسلامی کے زیر انتظام ملک بھر میں چلنے والے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے حکومت موجودہ حالات میں اپنی ضرورت کے مطابق کام لے سکتی ہے۔ ادھر وزیر خارجہ نے بدھ کے روز کہا کہ حکومت ایران اور سعودی عرب سے رابطوں میں ہے اور ہم دونوں برادر ممالک سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ہاں موجود زائرین کو اکٹھا نہ بھیجیں بلکہ ہمیں انتظامات کا موقع دیں موجودہ صورتحال میں دونوں برادر ممالک سے یہ درخواست انتہائی مناسب ہے دونوں ملکوں میں اس وقت مجموعی طور پر 10 سے 12ہزار زائرین موجود ہیں۔ وزیر خارجہ کا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ یہاں ہم وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے اس مؤقف کی طرف متوجہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ ہسپتالوں میں طبی عملے کی حفاظت کے لئے ضروری چیزیں موجود نہیں اس طرح یہ شکایت بھی سامنے آرہی ہے کہ پچھلے دنوں چین سے ملنے والے 12ہزار کرونا ٹیسٹنگ کٹس ابتر صورتحال کاشکار صوبوں کو فراہم نہیں کی گئیں حکومت ایک تو ان کٹس کی صوبوں کو مساوی فراہمی کو یقینی بنائے ثانیاً مخیر حضرات سے درخواست کرے کہ وہ کورونا ٹیسٹنگ کٹس کی خریداری اور فراہمی کے لئے حکومت سے تعاون کریں۔ وفاق اور صوبائی ح کومتوں کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ملک ایک مشکل د ور سے گزر رہا ہے’ گمبھیر ہوتے مسائل سے عوام کو نجات دلانے کے لئے ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں انہیں صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے کم سے کم وقت میں وہ فیصلے کرنے ہوں گے جو اصولی طور پر ہفتہ بھر ہو جانے چاہئیں تھے۔ اس وقت وطن واپسی کے منتظر شہریوں میں زیادہ تعداد عمرے کے لئے سعودی عرب گئے اور زیارات کے لئے عراق شام اور ایران گئے افراد کی ہے۔ عراق اور شام سے زائرین ایران پہنچ چکے ہیں ایران کے تعلیمی اداروں میں بھی 6ہزار سے زائد پاکستانی طلباء موجود ہیں ان سب کی مرحلہ وار واپسی سے قبل ضروری اقدامات کرلئے جانا بہت ضروری ہے تاکہ کسی مشکل صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح پنجاب اور بلوچستان کے قرنطینہ مراکز عالمی معیار کے نہیں ہیں اسے بھی انا کا مسئلہ بنائے بغیر طبی اصولوں کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات