2 88

مشرقیات

اللہ تعالیٰ نے حضرت عطاء بن ابی رباح کے علم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا ۔ فیض یافتگان میں اہل علم بھی ہیں اور اہل صنعت وحرفت بھی اور ان کے علاوہ اور بھی بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔حضرت عطاء بن ابی رباح پر دنیا بڑی مہربان ہوئی ، لیکن انہوں نے دنیا سے ہر ممکن اجتناب کیااور زندگی بھر صرف ایک قمیض پر گزارہ کیا ۔ عثمان بن عطاء خراسانی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے ابا جان کے ساتھ ہشام بن عبدالملک کی ملاقات کیلئے اپنے عمدہ گھوڑے پر سوار ہو کر دارالحکومت دمشق کی جانب روانہ ہوا ، راستے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بوڑھا آدمی موٹی اور کھر دری قمیض پہنے ہوئے بوسیدہ جبہ زیب تن کیے ہوئے اورمعمولی سی ٹوپی سر پر پہنے سیاہ رنگ کے گدھے پر سوار خراماں خراماں دمشق کی جانب رواں دواں ہے ۔میں نے اپنے ابا جان سے پوچھا۔ یہ آدمی کون ہے ؟ ابا جان نے کہا : خاموش رہو یہ فقہائے حجاز کے سردار عطاء بن ابی رباح ہیں، جب وہ ہمارے قریب آئے تو ابا جان گھوڑے سے اتر کر ان سے بغل گیر ہوئے۔پھر دونوں اپنی اپنی سواری پر سوار ہوئے اور سوئے منزل چل دیے۔ یہاں تک کہ ہشام بن عبدالملک کے محل کے دروازے پر جاکھڑے ہوئے ۔ ابھی وہاں پہنچے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اندر سے بلاوا آگیا ۔ میرے ابا جان اور ان کے ساتھی بزرگ مفتی اعظم مکہ عطاء بن ابی رباح اندر تشریف لے گئے اور میں وہیں کھڑا رہا۔جب دونوں بزرگ دربار سے باہر آئے تو میں نے ابا جان سے پوچھا امیر المومنین سے ملاقات کیسی رہی ؟ فرمانے لگے کہ جب امیر المومنین ہشام بن عبدالملک کو پتہ چلا کہ باہر محل کے دروازے پر عطاء بن ابی رباخ کھڑے ہیں ۔ تو فوراً انہیں اندر آنے کی دعوت دی گئی۔بخدا مجھے بھی انہی کی وجہ سے دربار میں جانے کاموقع ملا۔
مشہور تابعی حضرت عروہ بن زبیر مصائب و تکالیف پر بہت صبر کرنے والے تھے۔ صبر و استقامت کے پیکر تھے۔ ایک مرتبہ ولید بن یزید سے ملنے دمشق روانہ ہوئے تو راستے میں چوٹ لگ کر پائوں زخمی ہوگیا۔ سخت تکلیف کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور دمشق پہنچ گئے۔ ولید نے فوراً طبیبوں کو بلوا بھیجا’ انہوں نے زخم کا بغور جائزہ لینے کے بعد پائوں کاٹنے کی رائے پر اتفاق کیا۔ حضرت عروہ نے پائوں کاٹنے سے پہلے بے ہوشی کے لئے نشہ آوور دوا کے استعمال سے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ میں کوئی لمحہ اللہ کی یاد سے غفلت میں نہیں گزار سکتا۔ چنانچہ اسی حالت میں آرا گرم کرکے ان کا پائوں کاٹ دیاگیا ‘ پھر اپنا کٹا ہوا پائوں سامنے رکھ کر فرمایا۔ ” کیا غم ہے اگر مجھے ایک عضو کے بارے میں آزمائش میں ڈال کر باقی اعضاء کے سلسلے میں امتحان سے بچالیا گیا ہے” ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ انہیں خبر ملی ” ان کا ایک بیٹا چھت سے گر کر انتقال کر گیا ہے” انہوں نے ”انا للہ و انا الیہ راجعون” پڑھی اور فرمایا ” اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ایک جان لی اور کئی جانوں کو سلامت رکھا۔ ”
(کیونکہ باقی بیٹے سلامت تھے)۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو