2 97

مشرقیات

علامہ ابن اثیر جزری نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایرانی آتش پرستوں سے جہاد کرنے کے لئے قادسیہ پہنچے تو انہوں نے اپنے لشکر کے ایک افسر عاصم بن عمروہ کو کسی کام سے میان کے مقام پر بھیجا۔ حضرت عاصم یہاں پہنچے تو رسد کا سارا ذخیرہ ختم ہوگیا اور ساتھیوں کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا۔ انہوں نے تلاش شروع کی کہ شاید کوئی گائے بکرے مل جائے’ مگر کافی جستجو کے باوجود کوئی جانور ہاتھ نہ آیا۔ اچانک انہیں بانس کے ایک چھپر کے پاس ایک شخص کھڑا نظر آیا’ انہوں نے اس سے جاکر پوچھا: ”کیا یہاں آس پاس کوئی گائے بکری مل جائے گی؟”اس شخص نے کہا: ”مجھے معلوم نہیں!” حضرت عاصم ابھی واپس نہیں لوٹے تھے کہ چھپر کے اندر سے ایک آواز سنائی دی۔”یہ خدا کا دشمن جھوٹ بولتا ہے’ ہم یہاں موجود ہیں”۔حضرت عاصم چھپر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں کئی گائے بیل کھڑے ہیں مگر وہاں کوئی آدمی نہیں تھا اور یہ آواز ایک بیل کی تھی۔ حضرت عاصم وہاں سے گائے بیل لے کر آئے اور انہیں لشکر میں تقسیم کیا۔ یہ واقعہ کسی نے حجاج بن یوسف کو سنایا تو اسے یقین نہ آیا۔ اس نے جنگ قادسیہ کے شرکاء کے پاس پیغام بھیج کر اس کی تصدیق کرنی چاہی تو بہت سے حضرات نے گواہی دی ‘انہوں نے کہا: ”اس واقعے کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا تھا کہ اللہ ہم سے راضی ہے اور ہمیں دشمن پر فتح عطا فرمائے گا”۔”یہ بات اسی وقت ہوسکتی ہے جب لوگوں کی اکثریت متقی وپرہیز گار ہو”۔حجاج نے کہا۔ ”دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے” انہوں نے کہا’ ”لیکن اتنا ہم بھی جانتے ہیں کہ دنیا سے اس قدر بے نیاز قوم ہم نے ان کے بعد نہیں دیکھی”۔ (کامل ابن اثیرج: 2ص: 175 طبع قدیم)
حضرت مالک بن دیناربہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ آپ کی آرزو تھی کہ جامع مسجد دمشق کی تولیت (متولی ہونا) حاصل ہوجائے کیونکہ یہ شاہی مسجد تھی اور اس کے ساتھ بڑی جائیداد وقف تھی جبکہ اس کے متولی کو بڑے اعزاز و احترام سے دیکھاجاتا تھا۔ اس مقصد کے لئے حرص عہدہ میں آپ اس مسجد میں جا کر معتکف ہوگئے اور پورے ایک سال تک مصروف عبادت رہے تاکہ لوگ آپ کو ہر وقت نماز میں مشغول پاکر خلیفہ سے آپ کے تقدس کا ذکر کریں اور آپ کو تولیت کا اعزاز حاصل ہوجائے۔ ایک روز آپ نے دل میں کہا۔ میں ایک سال سے منافقانہ عبادت کر رہا ہوںکیوں نہ مخلصانہ عبادت کروں۔ دوسرے روز آپ نے توبہ کرلی۔ اس روز آپ نے مخلصانہ عبادت کی۔ چنانچہ دوسرے روز لوگوں نے ایک متولی کی ضرورت محسوس کی اور آپ کے پاس آئے کہ آپ اس مسجد کی تولیت قبول کرلیں۔ آپ نے دل میں کہا: الٰہی! میں ایک رات تیری طرف دل سے متوجہ ہوا تونے اکٹھے بیس آدمی میرے پاس بھیج دئیے۔ اب میںبھی تیرا ہی ہو کر رہوں گا۔ چنانچہ آپ اسی وقت اٹھ کر چلے آئے اور تولیت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آپ سب کچھ چھوڑ کر عبادت الٰہی میں مصروف ہوگئے۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان