2 100

اک شہر نور ہوگیا ظلمات کی طرح

جب کوئی قوم کسی بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے مختلف طبقات کی طرف سے مختلف قسم کا ردعمل دیکھنے میں آتا ہے، وہ اس مشکل حالت کیخلاف کیا رویہ اختیار کرتی ہے؟ منظم ہو کر اپنے دل ودماغ کی صلاحیتوں سے کام لیکر مقابلہ کرتی ہے یا بدحواسی کا شکار ہوکر اپنی مصیبتوں میں مزید اضافہ کرتی ہے؟ ہر مصیبت ہر تکلیف میں روشنی کی کچھ کرنیں بھی ضرور ہوتی ہیں کچھ مواقع بھی ہوتے ہیں، سیکھنے کیلئے بہت سے سبق بھی ہوتے ہیں، زندگی جو عام ڈگر پر چل رہی ہوتی ہے اچانک اس میں ایک بہت بڑی تبدیلی آجاتی ہے، اس بہت بڑی تبدیلی میں سب سے اہم بات آپ کا رویہ ہوتا ہے کہ آپ نے اس سارے مسئلے کو کس زاوئیے سے دیکھا؟
چند دن پہلے کی بات ہے ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے سکول کالج کھلے ہوئے تھے، امتحانات ہورہے تھے، دفاتر کھلے ہوئے تھے، روزمرہ کے کام کاج تواتر سے چل رہے تھے، تقریبات کا سلسلہ بھی جاری تھا، ملنا ملانا بھی ہورہا تھا، معانقے اور مصافحے بھی ہورہے تھے، کسی نے اس طرح سوچا بھی نہیں تھا کہ چند دنوں بعد سکول کالج بند ہوجائیں گے، دفاتر بند ہوجائیں گے، شادی ہال بند کر دئیے جائیں گے، شادیوں کی تقریبات ملتوی ہوجائیں گی، لوگوں سے ملنے ملانے کا سلسلہ موقوف ہوجائے گا، اپنے دوستوں بھائیوں کیساتھ ہاتھ ملانے سے پہلے ایک ہزار مرتبہ سوچنا پڑے گا، وہی دوست جن کو چند دن پہلے آپ گلے سے لگاتے تھے، اب ملنے سے پہلے کہتے ہیں یار ہاتھ ملانے سے پرہیز کرو، کیجئے نظارہ دور دور سے! بات اب ہیلو ہائے تک آپہنچی ہے، ہمارے ایک مہربان کا کہنا ہے کہ ہاتھ نہ ملا کر لوگوں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دینا، اس سے بہتر ہے کہ کل یہی لوگ آپ کی لاش پر رو رہے ہوں! اس ساری صورتحال کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ چند دنوں میں سب کچھ بدل گیا ہے، اب کسی کو بی آرٹی بھی یاد نہیں ہے، مہنگائی کا رونا بھی بھول چکا ہے، سیاستدان آپس کے جھگڑوں سے بھی چند دنوں ہی کیلئے سہی کنارہ کش ہوگئے ہیں، میڈیا کے پاس بھی بیچنے کیلئے اب سوائے کرونا وائرس کے دوسرا کوئی چورن نہیں ہے، اب سارے دانشور اپنے اپنے خیال کے مطابق اس مہلک وائرس سے بچنے کی تدابیر بتانے میں مصروف ہیں۔ سب اس مسئلے کو اپنی اپنی عینک سے دیکھ رہے ہیں! یہ بحران پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، سب اپنے اپنے انداز سے اس کیخلاف جنگ میں مصروف ہیں، وطن عزیز میں بھی سب کو یہی فکر یہی پریشانی لاحق ہے! کالم کے آغاز میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ بحیثیت ایک قوم ہم اس بحران کیخلاف کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ اور اسی سے ہماری اہمیت قدر وقیمت کا تعین ہوتا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کچھ لوگ ہاتھ ملانے پر اصرار کرتے ہیں، احتیاط کرنے والوں کا مذا ق اُڑاتے نظر آتے ہیں، اب بھی شہر کے بڑے بڑے بازاروں خصوصاً مینابازار اور کوچی بازار میں خواتین وحضرات کی ایک بہت بڑی تعداد خریداری میں مصروف نظر آتی ہے، اب بھی بہت سے لوگ گھر میں بیٹھنے کی بجائے گلیوں اور بازاروں میں ٹولیوں کی صورت گپ شپ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں! ایک طرف تو یہ سب کچھ ہورہا ہے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ کل ہماری نگاہ ایک گھر کے بند دروازے پر پڑی جس پر ایک چھوٹا سا چارٹ چسپاں تھا جس پر لکھا ہوا تھا، معذرت! کرونا وائرس کے خطرناک پھیلاؤ کی وجہ سے ہم سب گھر والوں نے چند دنوں کیلئے تنہائی اختیار کر لی ہے، اس لئے دروازے پر دستک دینے سے پرہیز کریں، اگر کسی کا کوئی بہت ضروری کام ہو تو وہ سیل فون پر رابطہ کرسکتا ہے! چارٹ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر ذہن میں خیال آیا کہ اس موذی مرض سے بچنے کیلئے تنہائی اختیار کرنا تو مناسب ہے لیکن اگر اس تنہائی کو مفید تنہائی میں تبدیل کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہے! مفید تنہائی وہ ہے جس میں آپ اپنی ذات کے حوالے سے سوچیں کہ ہماری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ ہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں اس کے بندے ہیں، ہم نے اسی کے سامنے جھکنا ہے، اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہے اور اسی سے مدد مانگنی ہے! گھر میں تنہا بیٹھنے کو مفید بنائیں ورزش کیلئے وقت ضرور نکالیں، اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھیں اور اپنے آپ کو یہ یقین دلاتے رہیں کہ وبا کا ایک محدود وقت ہوتا ہے جس نے گزر جانا ہوتا ہے، اگر آپ کا حوصلہ برقرار ہوگا تو تھوڑی دیر کیلئے اپنی تنہائی سے باہر بھی آئیں گے، گھر سے باہر نکل کر یہ بھی دیکھیں گے کہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنی ہے، ہمارے اردگرد ایسے بہت سے لوگ بکھرے ہوئے ہیں جنہیں اس وقت ہماری مدد کی ضرورت ہے، ہم سب اپنے پڑوسیوں، دوستوں، رشتہ داروں اور دوسرے ملنے جلنے والوں کے حالات سے باخبر ہوتے ہیں، یہی وقت ہے جب انہیں ہمارے سہارے کی ضرورت ہے۔
کل ہماری گلی میں ایک صاحب نے اپنے گھر چاول پکوا کر پورے محلے میں تقسیم کئے، ان کے بچے گھر گھر چاول بانٹتے رہے، انہیں محلے داروں سے ایک شکایت تھی کہ لوگ اس وقت تک اپنے گھر کا دروازہ نہیں کھولتے جب تک پورا انٹرویو نہ لے لیں! ہم نے ان سے کہا بیٹا کوئی بات نہیں حالات ہی ایسے ہیں، احتیاط کرنے میں کیا ہرج ہے، آپ چاول بانٹ کر جب فارغ ہوجائیں تو اپنے ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھو لیں ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے بہتری کی اُمید رکھنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ