3 49

سوئی گیس کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ

بعض سرکاری اداروں اور محکموں کے اہلکاروں نے جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ عوام کو اوازار کرکے ہی چھوڑنا ہے۔ جب ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ات مچائی ہوئی تھی اور دن رات کے مختلف اوقات میں اعلانیہ کیساتھ غیراعلانیہ طور پر بھی برقی رو اچانک بند کر دی جاتی تودن کے اوقات میں سخت گرمی سے لوگ پسینے سے شرابور واپڈا والوں کے حق میں”کلمہ خیر” پڑھنا شروع ہوجاتے تھے تو رات کے اوقات میں گہری نیند سے ہڑبڑا کر جو بے نقط ان کے منہ میںآتا وردزبان لاتے اور اندھیرے میں ہاتھ سے جھلنے والے مزری کے دستی پنکھوں کی تلاش شروع کر دیتے۔ پھر یوں ہوتا کہ یہ صورتحال زندگی کا ایک لازمی حصہ بنتا چلا گیا، البتہ ہوتا یہ تھا کہ شدید احتجاج کے بعد مختلف علاقوں کیلئے لوڈشیڈنگ کے اوقات مقرر ہونے سے عوام ذہنی طور پر پہلے سے تیار رہتے کہ اب برقی رو منقطع ہونے کا وقت آچکا ہے، اس دوران چین بھی پاکستانی عوام کی مدد کو آگے آیا اور جنریٹرز کی صورت کچھ آسانیاں بہم پہنچائی گئیں، یہ الگ بات ہے کہ باڑہ مارکیٹوں میںتاجروں نے اس میں بھی ڈنڈی ماری شروع کردی اور دو،تین بلکہ چارنمبر کے جنریٹرز کی بھرمار سے قیمتوں میں تو کمی کی گئی مگر ان ناقص جنریٹرز کی کارکردگی کی مدت 6ماہ سے (زیادہ سے زیادہ) ایک سال تک محیط ہوگئی، ساتھ ہی انورٹرز کی ایجاد سے بھی تھوڑی بہت آسانی پیدا ہوئی جبکہ جس دل آزاری کابات کالم کے آغازمیں ہم نے کی ہے وہ کچھ یوں تھی کہ جب گرمیوں کاموسم اختتام ہونے کیساتھ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کردیا جاتا تب بھی گرڈسٹیشنوں پر بعض ایسے اذیت پرست ضرور موجود ہوتے جو عادت سے مجبور ہو کر اکثر بجلی بند کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے حالانکہ جب لوڈشیڈنگ ختم ہوچکی ہوتی تو پھر بجلی بند کرنے کا کیا جواز ہوتا مگر ان کے ہاتھوں میںکھجلی کو کون روک سکتا تھا اور یہ صرف اپنی انا کی تسکین کیلئے بغیر کوئی وجہ بجلی بند کر کے لوگوں کوعذاب سے دوچار کردیتے تھے یوں گویا یہ لوگ بقول شاعر
اپنے ہونے کا پتہ دیتے ہیں
ہم بھی زنجیر ہلا دیتے ہیں
بجلی والوں نے تو اب یہ کام صرف گرمی کے موسم تک(زیادہ تر) محدود کر رکھا ہے اور اس کیلئے بھی زیادہ تر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر عمل کیا جاتا ہے، غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ البتہ اب صرف چھوٹے دیہی علاقوں تک محدود ہے، تاہم ان کے دیکھا دیکھی یہی کام سوئی ناردرن والوں نے اپنے ذمے لے لیا ہے، اس ضمن میں اگر بجلی والے عموماً گرمی کے موسم میں سرگرم دل آزاری رہتے ہیں تو سوئی گیس والوں نے سردی کے موسم میں یہی نیک کام انجام دینا شروع کررکھا ہے۔ چند ماہ پہلے تو بی آرٹی کا بہانہ کر کے پورے پشاور کو اکثر وبیشتر گیس سپلائی روکی جاتی رہی ہے مگر اس وقت شہر کے اہم علاقے گل بہار کالونی میں سردی کے آغاز سے ہی گیس لوڈشیڈنگ جاری رکھی ہوئی ہے، ابھی چند روزپہلے لکی ڈھیری روڈ پر جاوید ٹائون اور ملحقہ علاقوں میں گیس پائپ لائن سے پانی نکلنے کی خبریں سامنے آئی تھیں جس پر ہمارے ساتھی کالم نگار سید شکیل احمد نے بڑے دلسوز انداز میں رائے زنی کرتے ہوئے علاقہ مکینوں کی فریاد سامنے لانے کی کوشش کی تھی، جبکہ گل بہار کے دیگر حصوںمیںبھی گزشتہ تین چار مہینے سے گیس فراہمی کے حوالے سے عوامی شکایات گاہے گاہے سامنے آتی رہی ہیں اور اب تو تنگ آمد بہ جنگ آمد والی صورتحال ہوگئی ہے یعنی عوامی سطح پر احتجاج سامنے آرہی ہے اور لوگوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوئی اور صورتحال میں بہتری نہیں آتی تو لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے
محل کے سامنے اک شور تھا قیامت کا
امیر شہر کواونچاسنائی دیتا ہے
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تین روزسے صبح 8بجے سے رات8بجے تک سوئی گیس کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے جبکہ سردی کے آغاز ہی سے رات9بجے سے صبح 5:30 بجے تک گیس پہلے ہی ناپید ہوتی ہے اور اذان فجر کے بعد بحال کردی جاتی ہے، یہ صورتحال عوام کو بلاوجہ عذاب سے دوچار کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے تاکہ لوگ موجودہ حکومت سے نالاں ہوجائیں۔اسلئے صوبائی حکومت کے ذمہ دار اس بات کا نوٹس لیکر متعلقہ حکام سے اتنا تو پوچھیں کہ وہ کیوںعام لوگوں کے دلوں میں پی ٹی آئی حکومت کے بارے میںمنفی تاثر اُبھار رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ لوگ ایک محکمے کی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈال کرآنے والے بلدیاتی اور پھر عام انتخابات میں اس جماعت کے نامزد کردہ اُمیدواروں کو کہاں ووٹ دینے پرآمادہ ہوں گے، اسلئے اس صورتحال کے تدارک کیلئے حکومتی ذمہ دار آگے آئیں اور چندبرخود غلط افراد کو ان کی منفی کارکردگی پر سرزنش کرتے ہوئے عوام کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں، وگرنہ عوامی خدمات پر مامور اداروں کی کارکردگی اسی طرح مایوسانہ رہی تو آنے والے چناؤ میں موجودہ حکومت کیلئے کسی اچھے اور حوصلہ افزاء نتائج کی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں، چونکہ اس وقت بلدیاتی ادارے فعال نہیں ہیں یعنی ان میں عوامی نمائندگی آنے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد ہی سامنے آئے گی اس لئے ان اداروں کے سرکاری ایڈمنسٹریٹرز پر بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو موجودہ حکومت کے وژن کے مطابق حل کریں، اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ وہ اپنے متعلقہ مشیر کو فعال کر کے سوئی گیس کے متعلقہ حکام سے رابطہ کرنے کی ہدایت دیں تاکہ گل بہار کے مکینوں کا یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوجائے۔ بقول خواجہ حیدر علی آتش
باراں کی طرح لطف وکرم عام کئے جا
آیا ہے جو دنیا میں تو کچھ کام کئے جا

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟