2 102

مشرقیات

ٍٍامام غزالی بہت بڑے آدمی تھے ۔ کیا علم اور کیا عمل ہر طرح بہت بڑے تھے ۔ ایک مرتبہ اپنے ایک دوست سے ملنے اس کے گھرگئے ابھی گھر میںگئے ہی تھے کہ دوست کی آواز سنی ۔ ڈانٹ اور پھٹکار کی آواز نہ جانے کس سے ناراض تھا کہ مسلسل برسے جارہا تھا ۔ ذرا اور قریب ہوئے تو معلوم ہوا کبھی بیوی پر برس رہا ہے کبھی بچوں پرکہ یہ چیز کہاں ہے ؟ وہ چیز کہاں ہے ؟ تلوار کیوں چمکدار نہیں ؟ عمامہ ایسا کیوں ؟ عبادیسی کیوں نہیں ؟ عطر کہاں رکھا ہے ؟ معلوم ہوتا تھا کہ وہ گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگا بھاگا پھر رہا تھا ۔ صاف معلوم ہوتا تھا اسے کہیں جانا تھا اور جگہ ایسی تھی جہاں بڑے اہتمام سے جانا تھا ۔ امام غزالی نے سمجھ لیا ان کا دوست حضور رس تھا ۔ دربار شاہی میں جارہا ہوگا۔ یہ سرکار دربار کی بات بھی عجیب ہے کچھ تووہاں جانے کے لئے جان دیتے ہیں ۔ مارے مارے دوڑے دوڑے پھرتے ہیں اور کچھ کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جانا ایک طرف اس کا ذکر سننابھی پسند نہیں کرتے ۔ ایک بزرگ تھے۔ ابو قلابہ جرمی ! بہت بڑے قانون دان تھے ۔ اسلامی قانون کے ماہر جسے کہتے ہیں فقیہہ ! ذہن کے بڑے تیز تھے۔ مشکل سے مشکل بات ہوتی چٹکی بجاتے ہی اس کا حل بتا دیتے ۔ ایسے لائق آدمی کی کب ضرورت نہیں ہوتی ۔ ہوتے ہوتے ان کی شہرت جب عراق کے گورنر کے کانوں تک پہنچی تو اس نے انہیں بلابھیجا ۔ اس کا خیال تھا انہیں قاضی بنادے صوبے کا چیف جسٹس ۔ ان کے پاس بلاوا گیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرشام کی طرف چلے گئے تاکہ ان کا پیچھا نہ ہوسکے ۔ ایک شاگرد تھے ایوب انہیں بڑا رنج ہوا کہ اُستاد نے یہ عہدہ کیوںنہ قبول کیا ۔ بڑی مدت بعد عراق لوٹے تو شاگرد رشید نے خدمت میں پہنچ کر سلا م ودعا کی پھر مناسب موقع پر کہا آقائی ! اگر آپ قاضی بن جاتے تو نقصان کوئی نہیں تھا ۔ عدل وانصاف کا بول بالا ہو تا اور اللہ آپ کو اس کا صلہ دیتا ۔ درباری بلاوے سے بھاگنے والے ابو قلابہ جرمی نے جواب دیا ایوب ! مانا کہ ایک شخص تیرنا جانتا ہے اور چھی طرح جانتا ہے مگر یہ بھی تو سوچواگر وہ سمندر میں کود جائے تو کہاں تک تیرسکتا ہے !! ایوب استاد کی بات کو سمجھ گئے تو سر ڈال کر خاموش ہوگئے ۔ امام غزالی اپنے دوست کے گھر میں داخل ہوئے تو تیزی سے دوست کے پاس پہنچے دیکھا بدستور چیخ پکار میں لگا ہے تو اس سے پوچھا خیر تو ہے کیوں بوکھلا گئے ہو ؟ کوئی خاص بات !جواب ملا ہاں ! میں اچھے سے اچھا اور بہتر سے بہتر لباس ڈھونڈ رہا ہوں ۔ اپنے ہتھیار چھانٹ رہا ہوں کہ تلوار کی چمک ایسی ہو کہ نگاہوں کو اُچک لے میر ا لباس ایسا دیدہ زیب اور شاندار ہو کہ دیکھنے والا بس دیکھتا رہ جائے ۔ امام غزالی نے پوچھا کیوں ؟ وہ بولا خلیفہ نے بلایا ہے امام نے یہ بات سنی تو سوچا میرادوست خلیفہ کے دربار میں جانے کے لئے اتنی تیاری اور ایسا اہتمام کر تا ہے ، ذرا اس سے پوچھو ں کہ اے میرے حبیب لبیب تمہیں بہت جلد اللہ بھی یاد کرنیوالا ہے ۔ کچھ تیاری کچھ اہتمام وہاں کے لئے بھی کر رکھا ہے؟ ۔ (روشنی)

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن