2 109

کیا کورونا طاقت کا بے رحم کھیل ہے؟

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب اور سندھ اسمبلی کے سابق سپیکر حسین ہارون کی ایک ویڈیو کلپ میڈیا میں گردش کر رہی ہے جس میں انہوں نے پوری ذمہ داری اور تحقیق کیساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ کورونا امریکہ کا بائیولوجیکل ہتھیار تھا جسے لیبارٹری میں ایک مخصوص مقصد کیلئے تیار کیا گیا۔ حسین ہارون ایک ذمہ دار شخصیت اور ملک کے معروف کاروباری اور اخباری صنعت سے وابستہ گھرانے کے فرد ہیں۔ وہ ایک متوازن اور معتدل شخصیت کی پہنچان رکھتے ہیں، اس لحاظ سے ان کی ویڈیو خاصی چشم کشا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی برطانوی لیبارٹری میں تیاری ایک بہت بڑی سازش کا حصہ تھا، اس کا مقصد لوگوں کو کیمیکل وارفیئر کے طور پر خوفزدہ کرنا تھا۔ حسین ہارون کے مطابق2006 میں امریکہ کی کمپنی کائرون نے اس وائرس کی تیاری کیلئے حقوق حکومت امریکہ سے حاصل کئے، پھر اس کی ویکسین کے حقوق یورپ سے خریدے گئے، حسین ہارون نے وائرس اور ویکسین کے پیٹنٹ نمبرز کے حوالے بھی دئیے ہیں، ان کے مطابق اس وائرس کی دوائی اسرائیل میں بننا شروع ہوگئی ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے جو ہمیں تسلیم کرتے ہیں ہم انہیں یہ فراہم کریں گے اور جو نہیں تسلیم کرتے انہیں یہ فراہم نہیں کی جائے گی، اس طرح اس کھیل کے سیاسی مقاصد ہیں۔ ویکسین اسرائیل میں تیار ہے مگر تقسیم نہیں کی گئی، چین نے پہلے ہی کہا تھا کہ وائرس ووہان آنے والے پانچ امریکی کھلاڑیوں کے ذریعے منتقل کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے اس کھیل کا مقصد اسرائیل کو ایک عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنا ہے۔گویاکہ یہ اسرائیل کا عالمی طاقت کے طور پر ٹیک آف کا ایک انداز ہے۔ یہ حسین ہارون کی بیان کردہ کہانی کا خلاصہ ہے، حقیقت میں اس ویڈیو میں وائرس اور ویکسین کے سند حق ایجاد یعنی پیٹنٹ نمبرز سمیت پورے ثبوت کیساتھ کورونا وائرس کو امریکہ کا کیمیکل ہتھیار کہا ہے۔ حسین ہارون کی اس انکشاف انگیز ویڈیو کلپ سے پہلے یہ کھیل بڑی حد تک عیاں ہو چکا ہے، چین کے میڈیا نے پہلے ہی بہت محتاط انداز میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ کورونا وائرس امریکہ کا تیارکردہ ہے اور اسے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت چین منتقل کیا گیا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روز اول سے ہی اسے چینی وائرس کہہ کر چین کو عالمی سطح پر زچ کرنے کا سلسلہ جار رکھا۔ یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک امریکی صحافی نے ٹرمپ کی اس اصطلاح کو نسل پرستانہ قرار دیا۔ ٹرمپ نے اس سوال کے جواب میں ڈھٹائی سے کہا کہ وہ اسے چینی وائرس کہنے میں حق بجانب ہیں۔ عالمی طاقتوں کے تغیر وتبدل اور بناؤ بگاڑ کے فیصلہ کن مراحل میں ایسے بڑے کھیل کھیلنا کوئی نئی بات نہیں۔ برطانیہ جب دنیا کی حکمرانی اور نوآبادیوں کا بوجھ اُٹھا کر تھک گیا تو دوسری عالمگیر جنگ چھیڑ دی گئی۔ نجانے ہٹلر کو ہٹ دھرمی کی راہ پر دھکیلنے کیلئے صدام حسین والا کارڈ استعمال کیا گیا ہو جب امریکی سفیر مقیم بغداد نے صدام حسین سے خصوصی ملاقات میں اسے کویت پر چڑھ دوڑنے کا اشارہ دیا۔ جب صدام نے کویت پر چڑھائی کی تو کویت پر سے عراق کا قبضہ چھڑانے کیلئے امریکہ نے خلیج میں طاقت کا وہ طویل المیعاد کھیل شروع کیا جو اب تک مختلف انداز سے جاری ہے ۔ خلیج کی جنگ نے عالم عرب کو کمزور کرنے اور اسرائیل کے مشرق وسطیٰ میں بڑی طاقت بننے کے عمل کی بنیاد رکھ دی تھی جس کے بعد اسرائیل کے تمام سخت گیر مخالف عرب حکمران ایک ایک کرکے عبرت ناک انجام کا شکار بنا دئیے گئے۔ اس کھیل میں مشرق وسطیٰ کو ادھیڑ کر اسرائیل کو ٹارزن بننے کا راستہ دکھا دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے پردے سے امریکہ کا ٹیک آف ہوا اور وہ برطانیہ کی جگہ ایک نئی سپرطاقت کے طور پر سامنے آیا۔ عین ممکن ہے کہ اسرائیل کو عالمی میدان میں ایک بڑا کھلاڑی بنانے کیلئے یہ سار ا میلہ سجایا گیا ہو۔ اسرائیل جس طرح امریکہ کے کندھوں پر سوار ہو چکا ہے وہ امریکہ کے مستقبل کیلئے بھی اچھا شگون نہیں۔ کورونا بحران کے جاری رہنے کی صورت میں ماہرین ابھی سے ڈالر کے کمزور ہونے کی پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں سی این این کے اینکر فرید ذکریا کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے فنانشل ٹائمز کی معاون مدیر رعنا ڈوگر نے کہا ہے کہ جس طر ح امریکی بازار حصص اوربانڈ مارکیٹ کو سہارا دینے کیلئے دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ رہے ہیں اس سے ڈالر کمزور ہوجائے۔ امریکہ کورونا سے نمٹنے کیلئے جن منصوبوں کا اعلان کررہا ہے اس کیلئے رقم کا حصول ایک کاردارد ہے۔ اگر واقعی امریکہ کورونا بحران میں معاشی طور پرکمزور ہو کراس دلدل میں دھنس گیا تو اسرائیل ایک نئے کھلاڑی کے طور پر میدان میں آسکتا ہے۔ بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو ابھی منظر خاصا دھندلا ہے ابھی پوری انسانیت کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں مگر کورونا کی ایجاد اور برآمد کے پیچھے کوئی گریٹ گیم ہوئی یہ راز طشت ازبام ہو کر رہے گا۔ عالمی ساہوکار بہت بے رحم ہوتے ہیں اور ان کے کھیل بھی خونیں اور رونگٹھے کھڑے کر دینے والے ہوتے ہیں۔ انسانوں کو مروانا، خوف ہیجان اور سنسنی پیدا کرنا، معاشی اتھل پتھل جیسے کام ان کیلئے ویڈیو گیمز کے ”کی بورڈز” پر اُنگلیاں چلانے سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔ انسانیت روتی ہے مگر وہ آنسوؤں کی مالا میں اپنی شبیہ دیکھ کر اور اسے کھیل میں اپنی کامیابی جان کر دل ہی دل میں ہنس رہے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟