2 118

کرونا امدادی فنڈ اور سامان کی تقسیم

حکومت اور عوام دونوں نے آخر کرونا کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے، عوام کی اکثریت گھروں تک محدود ہو گئی ہے اور حکومت بھی لاک ڈاؤن کو مفید قرار دینے لگی ہے، اگرچہ اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ تعداد یورپ اور امریکہ سے بہت کم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ موذی مرض رُک رہا ہے ایسا نہیں ہے ہر روز دسیوں نئے کیسز سامنے آرہے ہیں، کسی کسی دن تو تعداد سینکڑوں میں پہنچ جاتی ہے اور یہ تعداد بھی ہونے والے انتہائی کم ٹیسٹ ہونے کے بعد سامنے آتی ہے لہٰذا یہ حتمی ہرگز نہیں کہی جا سکتی بلکہ اصل تعداد اِس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ابھی رپورٹ نہیں ہوئی۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی جا سکتی ہے کہ جلد سے جلد اس وباء کو ختم کرے اور اس کی کوئی دوا یا ویکسین تیار کی جا سکے اور دنیا پھر رواں دواں ہو۔ اس لاک ڈاؤن نے دنیا کو اس کی حقیقت بھی سمجھا دی ہے اور کئی ایسے واقعات بھی ہو رہے ہیں جو اس سے پہلے نہیں ہوئے تھے، مثلاً اوزون کی تہہ کی بحالی یا تیل کی قیمت کا گرنا یا اس کے ذخائر ضرورت سے زیادہ ہونا بہرحال یہ تو کچھ نکتۂ ہائے معترضہ سمجھ لیجئے۔ اب آتے ہیں ان اقدامات کی طرف جو دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص اُٹھائے گئے چونکہ یہ ایک عالمی وباء ہے لہٰذا تھوڑا سا ذکر پوری دنیا کا ہونا چاہئے کہ وہ کیسے اس وباء سے متاثر ہو رہی ہے اور کیسے نمٹ رہی ہے۔ جہاں تک متاثر ہونے کی بات ہے تو یورپ اور امریکہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، ایشیائی ممالک قدرے بہتر صورتحال میں ہیں اگرچہ اس کی ابتداء چین سے ہوئی لیکن اس نے سخت اقدامات کی بنا پر اس پر قابو پا لیا اور اب وہاں بہت کم کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں اور اس وقت باقی دنیا کے مقابلے میں بہتر صورتحال میں ہے اور دوسرے ممالک کی مدد کر رہا ہے لیکن اس بیماری میں سب سے بڑی مدد اپنی کوشش اور احتیاط ہے اور اسی لئے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ جن ملکوں نے جلد لاک ڈاؤن کیا وہ زیادہ فائدے میں رہے اور جنہوں نے تاخیر کی وہ بھی بہرحال اس پر مجبور ہوئے اور یوں دنیا تو تقریباً بند ہو گئی لیکن اس کیساتھ ہی کئی معاشرتی اور سماجی مسائل نے جنم لے لیا اور خاص کر روزانہ اُجرت پر کام کرنے والا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ان کی روزی روٹی کا مسئلہ بن گیا جس کا سب سے ہولناک منظر بھارت میں دیکھنے میں آیا جہاں کروڑوں مزدور واپس اپنے اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلے تو کئی ایک تو راستے ہی میں جان سے گئے خیر یہ تو ایک الگ موضوع ہے لیکن پاکستان میں بھی یہ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم نے احساس پروگرام کے تحت ایک ریلیف فنڈ بھی قائم کیا اگرچہ اس سے پہلے ہی تمام لوگ اپنی اپنی کوشش شروع کر چکے تھے اور اپنے جان پہچان والے حقداروں تک حق پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے جو ایک اچھی بات ہے اور پاکستانی معاشرے کا خاصہ ہے تاہم حکومتی کوشش کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اب حکومت نے اس فنڈ کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس کے طریقۂ کار کے اوپر کئی اعتراضات اُٹھائے جا رہے ہیں اور ان اعتراضات کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے کہ اس عالمی مسئلے کو اپنے سیاسی نام نمود اور مفاد کیلئے استعمال نہ کیا جائے اب تک جو اقدامات اُٹھائے گئے ہیں ان میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے۔ سب سے پہلے تو اس فنڈ میں رقم جمع کرانے والے صاحبان اقتدار کے نام بمعہ رقم کی مالیت کے بتائے جائیںکیونکہ اگر ان کی طرف سے عطیات نہیں آئیں گے تو میرے جیسے عام آدمی اپنی حیثیت کے مطابق رقم جمع کرائے گا اور اس سے کسی بڑے فنڈ کے بننے کی توقع نہیں ہونی چاہئے۔ کچھ لوگ یہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ بلدیاتی حکومتیں نہ ہونے کا اب نقصان ہو رہا ہے کیونکہ مقامی کونسلر اپنے علاقے کے لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لہٰذا وہ یہ امداد ان تک بڑی سرعت اور ایمانداری سے پہنچا سکتے ہیں بالکل ایسا ہی ہے کہ وہ چار آٹھ گلیوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ماضی کا تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ میں بذاتِ خود ایسے بلدیاتی نمائندوں کو جانتی ہوں جن کے گھر کے کمرے سلائی مشینوں سے بھرے رہے ہیں لیکن پہنچی یہ مشینیں صرف جان پہچان والوں تک ہیں ہر حقدار تک نہیں، وجہ یہ کہ ”ووٹ کس کو دیا مجھے تو نہیں دیا”۔ لہٰذا حکومت کو ان تمام پہلوؤںکو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اگرچہ حکومت نے کچھ احتیاطیں ضرور کیں ہیں مثلاً جس کا پاسپورٹ بنا ہو اس کو یہ امداد نہیں دی جائیگی، اس میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے اور ریکارڈ کی مزید جانچ درکار ہے کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو محنت مزدوری کے سلسلے میں خلیجی ممالک میں گئے ہیں لیکن مناسب روزگار اور کمائی نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگئے ہیں اور میں کئی ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو اب گھریلو ملازمین کی حیثیت سے کسی کے گھر میں کام کر رہے ہیں لہٰذا موجودہ روزگار اور حیثیت معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔یہ یاد رکھیں ہم عوام اور چھوٹے لوگ ہمیشہ سے ہی اس طرح کے فنڈز میں پیسے دیتے رہے ہیں اور پھر کبھی جان نہ سکے کہ وہ پیسہ کہاں گیالیکن اب کی بار خدا را ایسا مت کیجئے ہمیں بتائیے کہ ہمارا پیسہ کہاں گیا اور اسے سیاسی کارکنان تک بھی محدود مت رکھیے ہر حقدار تک پہنچائیں، جیسے کرونا نہیں جانتا کہ وہ کس کے جسم میں داخل ہو رہا ہے بادشاہ وقت ہے یا کوئی فقیر۔ اس وباء نے تو انسان کو یہ بھی سمجھا دیا کہ انسان ،انسان ہے چاہے وہ کسی ملک کا شہزادہ ہو، وزیراعظم ہو ،صدر ہو یا اس کے گھر والے یا عام گلی کا انسان یا گلی کے نکڑ کا فقیر اور اسی خوف کیساتھ یہ امداد دیجئے اور تقسیم کیجئے تاکہ کوئی بھوک سے نہ مرے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ ہو، آمین۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟