5 55

ہمیں دوسری عالمی جنگ کا سامنا ہے، کیا ہم تیار ہیں؟

کورونا وائرس کیخلاف گزشتہ کئی دنوں سے جاری لڑائی کے دوران (مجھ سمیت) بہت سے لوگ مسلسل یہ سوچ رہے ہیں کہ حکومت واضح حکمتِ عملی کیساتھ سامنے کیوں نہیں آرہی؟ حکومت کیوں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کورونا سے بچاؤ کیلئے کون سے اقدامات کرنے ضروری ہیں۔یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ اب تک وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کے دوران جو پیغام دینے کی کوشش کی ہے اس سے خاطرخواہ وضاحت نہیں ہوپائی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ یہ وائرس نزلے زکام جیسا مرض ہے اور 97فیصد مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں مگر جس کسی نے بھی اعداد پر کام کیا ہے وہ آپ کو یہ ضرور بتائے گا کہ اصل نکتہ یہ نہیں کہ 97فیصد مریض مکمل صحتیاب ہوجاتے ہیں بلکہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ تین فیصد صحتیاب نہیں ہو پاتے کیونکہ اگر وقت پر ٹھوس اور فیصلہ کن ایکشن نہ لیا جائے تو ان 3فیصد مریضوں کے ذریعے متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ آبادی کا تین فیصد خود ایک بڑا بلکہ بہت ہی بڑا عدد بنتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ دوسری جنگِ عظیم میں دنیا کی تین فیصد آبادی ہی موت کے گھاٹ اُتاری گئی تھی۔ خطرے کی اس قدر سنگینی کے باوجود ہمیں یہ بتایا گیا کہ زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔اپنے تازہ خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر یہ بات دہرائی کہ کورونا وائرس سے صرف عمر رسیدہ اور بیماروں کو خطرہ ہے۔ یہ بات نہ صرف غلط ہے بلکہ گمراہ کن بھی ہے اور یہ ایک خطرناک پیغام بھی ہے جو اعلیٰ منصب پر بیٹھے شخص کی جانب سے دیا جارہا ہے۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو یہ سوال ضرور پیدا ہوتا کہ دنیا بھر کے ممالک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے غیرمعمولی اقدامات کیوں اُٹھا رہے ہیں؟ کیا وہ خطرے کو سمجھنے میں ناکام رہے؟مختلف ملکوں کی حکومتوں سے لیکر عالمی ادارہ صحت سے منسلک اعلیٰ حکام نے اپنے پیغام کو دُور دُور تک پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ پیغام ہمارے وزیرِاعظم کے پیغام سے یکسر مختلف ہے۔ دیگر حکومتوں اور عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ جن افراد کو ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہے یا پھر جن کی جان کو خطرہ ہے وہ بھلے ہی بڑی عمر کے افراد ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو افراد عمررسیدہ نہیں یا جن میں ابتدائی علامات ظاہر نہیں ہیں وہ خود کو محفوظ سمجھنا شروع کردیں۔ ذمہ دار قیادت ممکنہ خطرات کی اہمیت کو گھٹانے کے بجائے انہیں اُجاگر کرتی ہے۔وزیرِاعظم نے ایک بار پھر اپنے تازہ خطاب میں لاک ڈاؤن کے خیال پر تنقید کی۔ جس کی وجہ شاید اپنے مؤقف کو درست ٹھہرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیرِاعظم نے لاک ڈاؤن کے نفاذ پر اپنے عوام سے معافی مانگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی وزیرِاعظم نے اپنے عوام سے لاک ڈاؤن کے باعث پیدا ہونے والی دشواریوں پر معافی مانگی تھی اور اس اقدام کو ضروری قرار دیا تھا۔ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کا طریقہ کار بہت ہی خراب تھا اور حکومت نے عوام کو صرف چند گھنٹوں کی مہلت دی۔ یہاں ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔بدقسمتی یہ ہے کہ اعلیٰ قیادت لاک ڈاؤن کے خلاف دلیل تو پیش کرتی ہے، مگر اس وائرس کو روکنے کیلئے کیا کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے ان کے پاس کوئی واضح حکمت عملی ہے ہی نہیں۔ وزیراعظم نے یہ دلیل دی تھی کہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ معاملہ کتنا طویل ثابت ہوگا، یہی بات ان کے پہلے خطاب کا مرکزی خیال بھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے بارے میں صرف اسی وقت سوچا جاسکتا ہے جب حالات بہت زیادہ بگڑ جائیں۔وائرس کا بحران کب اپنی چوٹی پر پہنچے گا؟ یا پھر یہ چوٹی کس قدر بلند ہوسکتی ہے؟ یہ بحران کتنا طویل ثابت ہوگا؟ کہاں کورونا کیسوں کی تعداد زیادہ ہے؟ یا وائرس کے جغرافیائی پھیلاؤ کی نوعیت کیا ہے؟ اس بارے میں تاحال وفاقی حکومت کے پاس کسی قسم کے اندازے موجود ہی نہیں ہیں۔کچھ روز پہلے تک تو حکومت ملک میں کیے جانے والے ٹیسٹوں کے درست اعداد وشمار کو جمع کرنے سے بھی قاصر تھی۔ یہ ساری باتیں پریشان کن ہیں اور باعث تشویش بھی کیونکہ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم موجودہ حالات میں آنکھوں پر پٹی باندھے اِدھر اُدھر بھٹک رہے ہیں۔ایک حقیقی رہنما کا کام یہ بات بتانا نہیں ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ حالات کس قدر بدتر ہوسکتے ہیں بلکہ اس کا کام ان اندازوں کو مرتب کرنے کیلئے درست لوگوں کو اپنے ساتھ لینا اور پھر ان کی مدد سے یہ پتا لگانا ہوتا ہے کہ آگے چل کر حالات کونسا رخ اختیار کرسکتے ہیں۔وفاقی حکومت کی لاپروائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وائرس سے متعلق اعداد وشمار فراہم کرنے کے بظاہر ذمہ دار ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے اپنی رپورٹ میں یہ بتایا کہ پنجاب میں 2720ٹیسٹ کیے گئے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ پنجاب میں چودہ ہزار ٹیسٹ کیے گئے۔یہاں اعداد کو تنقید کا بہانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔ کسی بھی ردِعمل کیلئے ٹیسٹنگ کا عمل بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اعداد وشمار کے بغیر آپ اپنی سمت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ ڈرگ ریگولیٹری ادارے کے بغیر آپ ادویات کا وہ نسخہ تیار نہیں کرسکتے جو اس لڑائی میں مطلوب ہے۔ بند آنکھوں اور خالی ہاتھوں کیساتھ دوسری جنگ عظیم کے ہم پلّہ جنگ لڑنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان