2 120

مشرقیات

خیانت کی ایک اور بھی شکل ہے؛ وہ ہے کام، منصب یا ذمے داری کسی ایسے شخص کو سپرد کرنا جو اس کا اہل نہ ہو۔ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا: جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا: یارسول اللہ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ (آپۖ نے)فرمایا: جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کردیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ (بخاری) اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ ذمے داری نااہلوں کے سپرد کرنا بھی خیانت ہے اور دورِ حاضر میں تو یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ حکومت کے اہم مناصب، یا تو تعلقات کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں، یا سیاسی ہم فکری کی بنیاد پر، یا کبھی اس میں اقربا پروری کو دخل ہوتا ہے تو کبھی رشوت ستانی کو۔ اس سلسلے میں ان افراد کے ساتھ ظلم ہوجاتا ہے جو حقیقتاً اس منصب کے اہل ہوتے ہیں اور نااہلوں کو منصب دیے جانے کے نتائج بد کو ایک عرصے تک پوری قوم بھگتتی ہے۔اس لیے حاکم اعلی کو چاہیے کہ اپنے دائرہ اختیار میں لائق ترین افراد کو تلاش کرکے انتظامی اختیارات ان کے سپرد کرے اور ایسے افراد کو تو بالکل نہ سونپے جو عہدے کے حریص ہوں۔ رسول پاکۖ کی سیرت سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔ آپۖ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم!ہم اس کام کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو، اور نہ کسی ایسے شخص ہی کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو۔ (صحیح ابن حبان) عہدے و منصب طلب کرنے کا جواز:یہاں ایک مسئلے کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا احادیث اور رسول پاک کے طرزِعمل(یعنی عہدہ طلب کرنے والوں یا اس کی خواہش رکھنے والوں کو عہدہ نہ دینا)سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا جائز ہی نہیں لیکن جمہوری نظام میں توبہت سے سرکاری مناصب بغیر درخواست کے مل ہی نہیں سکتے،ظاہر ہے کہ دست برداری کا موقف اختیار کرنا پوری قوم وملت کو سختی میں ڈالنے سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہمیں اس سلسلے میں فقہا کے ان اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، جو ان لوگوں نے سرکاری عہدے اور منصب کو طلب کرنے کے جواز کے سلسلے میں اختیار کیے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سرکاری عہدے اور منصب کو طلب کرنا اس صورت میں جائزہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ اس کے فرائض اور ذمے داریوں کو صحیح طور سے انجام دینے والا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے اور خود اپنے بارے میں اسے اندازہ ہو کہ وہ اس ذمے داری کو بحسن و خوبی انجام دے سکے گا اور اس کی نیت (جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے)جاہ و مال کی نہ ہو بلکہ خلق اللہ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کی ہو۔ نیز اسے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو۔ فقہا نے اپنے اس موقف پر سورئہ یوسف کی آیت55سے استدلال کیا ہے جس میں یوسف علیہ السلام کا بادشاہ مصر سے امور خزانہ پر مامور کرنے کی درخواست کرنے کا ذکر ہے اور یہ راے قائم کی ہے کہ یوسف کا عہدے کا طلب کرنا انہی بنیادوں پر تھا۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب