2 124

ڈاکٹروں سے افسوڈاکٹروں سے افسوسناک سلوک سناک سلوک

ملک بھر میں کورونا کا شکار مریضوں کے علاج معالجے پر مامور طبی عملے کی جانب سے حفاظتی طبی آلات کی عدم فراہمی کی شکایت عام ہے، کم ازکم دو ڈاکٹر اس جدوجہد میں جان کی بازی لگا چکے ہیں جبکہ درجنوں ڈاکٹر کورونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ کوئٹہ کے نوجوان ڈاکٹروں اور طبی عملے کا اس ضمن میں احتجاج بجا تھا جس پر ان پر تشدد کا جو مظاہرہ کیا گیا وہ قابل مذمت اور بلوچستان حکومت کی ناکامی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ڈاکٹر کو بغیر حفاظتی آلات کے مریضوں کا علاج کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، اس کا جواب اگر سراسر نفی میں ہے تو پھر ان کیخلاف تشدد کا کیا جواز تھا۔ قوم کے ہونہار سپوت ہی اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر میڈیکل کالجوں میں نشست حاصل کر پاتے ہیں، یہ ہمارے معاشرے کا سب سے ذہین ترین اور قابل طبقہ ہے، ان کو اہمیت نہ دی جائے اور ان کی حفاظت کا بندوبست نہ ہو تو پھر اس جاری وباء کا اور کسی ذریعے سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب حکمرانوں سے لیکر عوام تک گھروں سے نکلنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں، یہ نوجوان ڈاکٹر ہی ہیں جو ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج خطرے کی آخری حد مول کر بہادری سے کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پوری قوم ان کی ممنون ہو اور ان کی قدر کی جائے اس دفاعی حصار کو ہم اپنے ہاتھوں سے گرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر برادری اس سوال میں حق بجانب ہے کہ چین سے جو حفاظتی سامان آیا ہے وہ کہاں ہے؟ اسے کس نے تقسیم کیا، ایک ایسے وقت میں جب پہلے سے مسیحا کا لقب رکھنے والے ہیرو پورے انہماک سے اس بحران کا مقابلہ کر رہے ہیں ان کو وسائل وبھرپور مدد کی ضرورت ہے اس معاشرے میں ان پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں اور ان کو سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے۔ وطن عزیز کی آبادی کے تناسب سے ڈاکٹروں کی تعداد کتنی ہے اس بحث میں پڑے بغیر حکمرانوں سے سیدھا سادہ سوال یہ ہے کہ طبی عملے کے علاوہ اس مشکل صورتحال میں مریضوں کے علاج اور ان کی دیکھ بال کیلئے ان کے پاس اور کیا وسائل اور افرادی قوت میسر ہے، اگر ایک ایک کرکے خدا نخواستہ یہ افراد نہ رہے یا حکومتی اقدامات سے بددل ہو کر ہڑتال پر چلے گئے یا استعفے دیکر گھر بیٹھ گئے تو کیا عالم ہوگا۔ بلوچستان حکومت کو ڈاکٹر برادری سے معافی مانگنی چاہئے اور ان کو جتنا جلد ہوسکے تحفظ کا ساز وسامان مہیا کر کے ان کو مطمئن کیا جائے تاکہ وہ یکسوئی کیساتھ مریضوں کی خدمت اور ان کے علاج معالجے پر توجہ دے سکیں۔
بے وقت کی راگنی سے اجتناب کی ضرورت
لاک ڈاؤن کے باعث ہر قسم کے کاروبارپر منفی اثرات اور نقصانات سے انکار ممکن نہیں، مختلف حلقوں کی جانب سے امداد کیلئے حکومت پر دباؤ بڑھانے کا جو عمل جاری ہے ہمارے تئیں مطالبات میں وزن ہونے کے باوجود یہ بے وقت اور نامناسب اس لئے ہیں کہ اس وقت حکومت کو روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے اور محروم افراد کی مدد کیلئے یکسو کرنے کی ضرورت ہے، جن لوگوں کو امداد کی فوری ضرورت ہے حکومت کو اپنی پوری توجہ اور استعداد ان کی دستگیری میں صرف کرنے پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ انسانی المیہ رونما ہو۔ اس کیساتھ ساتھ اس سے بھی زیادہ ضروری امر کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کا علاج اور عوام کو کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے مختلف طبی اور انتظامی اقدامات حکومت کی ترجیح ہے۔ حکومت اور سرکاری اداروں کیلئے درپیش یہ چیلنجز اور وقت عوام کی اعانت اور ہر طبقے کی جانب سے مفاہمانہ روئیے کا متقاضی ہے۔ اس موقع پر مختلف قسم کے مطالبات بے وقت کی راگنی ہے، مختلف طبقے کے لوگوں کے متاثر ہونے سے انکار نہیں، وقت آنے پر حکومت ممکنہ طور پر ان کی طرف بھی متوجہ ہوگی۔ فی الوقت حکومت کو سوائے سخت ضرورتمندوں کی مدد اور کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے اقدامات ہی پر توجہ دینی چاہئے۔
معاشرتی فاصلہ کس بلا کا نام ہے؟
کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے معاشرتی دوری اختیار کرنے کی جتنی تلقین ہوتی ہے اس کو عام آدمی کی جانب سے تو درخوراعتناء نہ سمجھنا اپنی جگہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور سرکاری شخصیات کی جانب سے بھی اس کا خیال نہ رکھنا ان کی سرگرمیوں کی فوٹیج اور تصاویر سے پوری طرح واضح ہے، ایسے میں عوام سے تو اس کی توقع ہی عبث ہے۔ سبزی منڈی پشاور کی جو تصویر ہمارے اخبار کی گزشتہ روز کی اشاعت میں بزبان حال یہ کہانی سنا رہی ہے کہ ہم وہ لو گ ہیں جو خود اپنی جان کے تحفظ اور دوسروں کو خطرے سے محفوظ بنانے کیلئے اتنی قربانی بھی دینے کو تیار نہیں کہ مناسب فاصلہ رکھنے کی زحمت گوارا کریں۔ اگر آبادی کے ایک بڑے طبقے کا یہ عالم رہا تو لاک ڈاؤن کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ حکمران کم ازکم پہلے معاشرتی فاصلے کی پابندی کی مثال قائم کریں اور دوسروں میں شعور کی آگہی کا باعث بننے کی زحمت کریں تو بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن