5 59

حقیقی احتساب کی موہوم اُمید

آٹا اور چینی بحرانوں پر ایف آئی اے کی رپورٹ منظرعام پر آنے کا پہلا نقصان حکومتی جماعت کو ہوا۔ اس رپورٹ کی پہلی زد وزیراعظم عمران خان کے دست راست جہانگیر ترین پر پڑ ی تھی فطری طور پر حکومت کے غصے کی پہلی زد بھی انہی پر پڑتی دکھائی دی ہے۔ عمران خان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی ساکھ کی قیمت پر کسی شخصی تعلق، قرابت داری اور تعلقات کی کسی بھی شکل وصورت کو قبول نہیں کرتے۔ کھیل کے میدان سے سیاست کے جہان تک انہوں نے اپنے بارے میں اس تاثر کو قائم رکھا۔ قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنتے ہی انہوں نے پہلا وار اپنے تھکے ہوئے کزن ماجد خان کی کرکٹ ٹیم سے فراغت کی شکل میں کیا تھا۔ عمران خان وزیراعظم بننے کے قریب تھے تو ان کی سیاست کے ابتدائی دنوں کے ساتھی کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ خان نے ایک ٹی وی پروگرام میں ازراہ تفنن کہا تھا کہ وہ اپنی ساکھ بنانے کیلئے مجھے پھانسی پر بھی چڑھا سکتا ہے۔ حفیظ اللہ خان اب ان سے دور ہوتے ہوتے ان کے کڑے ناقدین میں شامل ہو چکے ہیں۔ اپنی شخصیت کے تاثر اور ساکھ کے بارے میں حساسیت کا معاملہ ہی ہے، ماضی کی روایات کے مطابق آج ان کے کزنوں سمیت خاندان کا کوئی قابل ذکر فرد وزیراعظم ہاؤس کی راہداریوں میں کاروباری افراد سے پراسرار ملاقاتیں کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان کی قربت اور ہمراہی کی بنیاد پر اگر کوئی شخص قانون وضابطے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے بڑا خوش فہم شخص شاید کوئی اور ہو۔ آٹا چینی بحرانوں کی اصل حقیقت پورے سیاق وسباق کیساتھ عیاں ہونا باقی ہے۔ اگرسبسڈی اور قیمتوں کے ہیر پھیر میں حکومت کے دست وبازو پوری طرح شریک ہوئے تو یہ بات تیقن کیساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عمران خان اپنی ساکھ کی قیمت پر ان کو بچانے کی ہرگز کوشش نہیں کریں گے۔ بحران کی رپورٹ منظرعام پر آتے ہی کابینہ میں رد وبدل اس ضمن میں پہلا اشارہ ہے۔ وزیراعظم کے دست راست جہانگیر ترین کو زرعی ٹاسک فورس کی سربراہی سے فوری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے۔ چینی بحران کی فرانزک رپورٹ کے بعد یہ سلسلہ ایک قدم آگے بڑھتا ہوا نظر آنا چاہئے۔ احتساب کی زد میں آنے والی اپوزیشن کا ہمیشہ سے یہی شکوہ تھا کہ صرف انہی کا احتساب کیوں؟ اس کیساتھ ہی ان کا یہ مطالبہ بھی ہوتا ہے سب کا احتساب۔ اب حکومت نے عوام کی مہنگائی سے جھکی ہوئی کمر پر آٹے اور چینی کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ کرنے والے اپنوں کے گرد احتساب کا شکنجہ کسنا شروع کر دیا ہے جس سے اپوزیشن کا یہ شکوہ دور ہونے کا امکان پیدا ہوگیا کہ صرف انہی کا احتساب کیوں؟ اور یہ مطالبہ پورا ہونے کی قوی اُمید پیدا ہو چلی ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ جہانگیر ترین کو عدالت کی طرف سے نااہل قرار دئیے جانے کے باجود غیراعلانیہ ڈپٹی وزیراعظم سمجھا جاتا تھا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے میں جہانگیر ترین کی کاوشو ں اور محنت کا گہرا دخل ہے اور ایک اچھے سرمایہ دار کی طرح انہوں نے پہلے روز ہی یہ بھولا ہوا سبق مختلف ٹی وی پروگراموں میں یاد دلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام بڑے سیاسی خاندانوں کو پی ٹی آئی میں لانے والے وہ خود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہی سیاسی گھرانے پی ٹی آئی کی انتخابی کامیابی کے ضامن بنے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ شوگر کلب حکومت کی حمایت سے دستکش ہوکر اتھل پتھل بھی کر سکتا ہے۔ جہانگیر ترین نے مختلف ٹی وی پروگراموں میں اپنا کامیاب دفاع بھی کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ چینی اور آٹا بحرانوں کے سیاسی محرکات بھی ہوں اورایک آدھ دھرنے سمیت کئی دوسری سرگرمیوں کی طرح اس میں بھی اپنوں کا ہی ہاتھ ہو۔ اس تاثر کو بہت منظم انداز میں پھیلا کر مضبوط کیا گیا تھا کہ جہانگیر ترین حکومت سازی میں اپنے کردار اور وسائل کے استعمال کا منافع وصول کر رہے ہیں۔ سردست یہ تاثر ہواؤں میں تحلیل ہو گیا ہے۔ عمران خان کا ٹریک ریکارڈ بتا رہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے معاملے پر کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ اپنوں اور پرایوں کے بلاتخصیص احتساب کی حوصلہ افزائی جاری رکھیں گے۔
پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگل کے قانون کی زد میں ہے جہاں فیصلہ سازی پر طبقہ اشرافیہ کے ایک کلب کی بالادستی تھی۔ یہ کلب سیاسی تفریق اور تمیز سے بالاتر مشترکہ مفادات کی بنیاد پر قائم تھا۔ کلب میں اگر حکومت اور اپوزیشن سے تعلق کی تقسیم ہوتی بھی تھی تو ایک طبقہ دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتا تھا۔ اس طرح پرامن بقائے باہمی کا ایک غیرتحریری معاہدہ اس کلب کے آئین اور دستور کا کام دیتا تھا۔ عمران خان کی حکومتی ایوانوں میں آمد اس لحاظ سے اس کلب کے کسی بجلی کی کڑک اور چمک سے کم نہ تھی کیونکہ بطور وزیراعظم سب فائلوں اور داستانوں تک ان کی رسائی ممکن ہو چکی تھی۔ اب عمران خان نے اپنے اصل ایجنڈے کی طرف توجہ دینا شروع کر دی ہے تو یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ یہ نئی روایت اور سلسلہ بااثر افراد کیلئے کسی طور اچھا نہیں مگر عام آدمی کی بقا صرف قانون کی حکمرانی میں ہے۔ اس کے پاس بچاؤ کی واحد راہ قانون کا ساتھ ہوتا ہے۔ چینی اور آٹا بحران اگر ملک میں بے لاگ اور بلاتخصیص احتساب کی بنیاد بنتے ہیں تو ان بحرانوں میں عوام کی معاشی قربانی اور ذہنی اذیت قطعی رائیگاں نہیں گئی۔ یہ خدشہ موجود ہے کہ ماضی کی روایات کے عین مطابق یہ کارروائی محض شلجموں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ثابت ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج