2 128

وزیراعظم کی عوام سے دردمندانہ درخواست

وزیراعظم عمران خان نے قوم کو کورونا وباء کی صورتحال کے تناظر میں سنجیدگی کیساتھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا کا واسطہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ کورونا وائرس نے بڑھنا ہے، احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے ہی اس وبا سے بچا جا سکتا ہے۔ حکومت دیہاتوں میں لاک ڈاؤن نہیں کررہی، زرعی شعبہ کو مکمل طور پر کام کرنے کی اجازت ہے۔ ادھر وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم کے ریلیف پیکج کے تحت یوٹیلیٹی سٹورز کیلئے50 ارب کے پیکج کی منظوری دی۔ وزیراعظم نے کہا14اپریل سے تعمیراتی شعبہ میںکام شروع ہو جائیگا، احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ20لاکھ خاندانوں میں144ارب روپے تقسیم کئے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں23لاکھ خاندانوں کو12ہزار روپے فی کس ملیں گے، امدادی رقوم کی تقسیم کا عمل اڑھائی ہفتوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے کورونا پر دی گئی بریفنگ پر چیف جسٹس آف پاکستان نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کورونا کیخلاف سخت محنت کرنا ہوگی۔ مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ تخمینے کے برعکس کم کیسز اور اموات رپورٹ ہوئیں۔کورونا کو گرمی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔صدر مملکت نے بھی اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وباکیخلاف جنگی بنیادوںپر کام کرنا ہوگا۔وفاقی حکومت نے ایک بار پھر عندیہ دیا ہے کہ لاک ڈائون میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش آئندہ دنوںمیں بھی جاری رہے گی۔امر واقعہ یہ ہے کہ کورونا وبا کے دنیابھر میں ہوئے اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔عالمی برادری کے معاشی طور پر طاقتورملکوں کے سماجی اور معاشی نظام کو اس وبا سے جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ اسے سامنے رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی وضع کرے۔یہ بھی کھلے دل سے تسلیم کیا جانا چاہئے کہ بعض ضروری نوعیت کے اقدامات میں ہمارے ہاں تاخیر ہوگئی، مثال کے طور پر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے کروڑوںخاندانوں میں بارہ ہزار روپے ماہانہ کی امداد کی تقسیم لگ بھگ 15دن قبل شروع ہو جانی چاہئے تھی۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گریڈ ایک سے5تک کے سرکاری ملازمین اور اس کے مساوی نجی ملازمین کے امداد کیلئے ابھی تک کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی۔ لاک ڈائون نے نظام زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے، قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ اور مستقبل کو محفوظ کرنے کیلئے ضروری اقدامات کے حوالے وفاقی اور صوبے مختلف الخیال دکھائی دیئے۔پاکستانی سماج میں دو بڑے طبقات ہیں اولاً غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے6سے7 کروڑ افراد اور ثانیاً4ساڑے چار کروڑ سفید پوش یہی دونوںطبقات موجودہ صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔کورونا کے حوالے سے اب تک کے اعدادوشمار اور صورتحال دونوں کے تناظر میں بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ شاید لاک ڈائون میں ہفتہ ڈیڑھ ہفتے کا اضافہ ہو،ایسا ہوتا ہے تو مندرجہ بالا دونوں طبقات کیلئے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔یہ وہ وقت تھا جب ضرورت اس بات کی تھی کہ ملک کی قومی سیاسی قیادت متحدومتفق ہو کر قوم کی رہنمائی کرے مگر افسوس کہ وباء کے اس موسم میں بھی بداعتمادی بڑھی اور مروجہ سیاست کو ہی رزق فراہم ہوا، خدشات وخطرات موجود ہیںخود وزیراعظم بھی اس حوالے سے عوام کو خبردار کر چکے ہیںاندریںحالات یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ عوام الناس نے موجودہ صورتحال میں اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا کہ کرنا چاہئے تھا۔خوش آئند بات ہے کہ ایک کروڑ20لاکھ خاندانوںمیں تین مرحلوں کے دوران144ارب روپے کی امداد تقسیم کی جائے گی مگر یہ بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے کہ موجودہ صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خاندانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، دور دراز کے دیہی علاقوں میں تو اب بھی لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ کہاں امداد کیلئے رجسٹر ہونا ہے اور کیسے امداد ملے گی، ضروری تھا کہ حکومت اس حوالے سے بھی غور کرتی۔ وزیراعظم عمران خان سماجی خدمت کے شعبہ میں نمایاں کارکردگی رکھتے ہیں انہیں اولیت ہی اس حوالے سے اقدامات کو دینا چاہئے تھی، یہ بجا ہے کہ ملک بھر میں درجن بھر فعال سماجی خدمت کے اداروں نے اپنے تئیں بھرپور کام کیا اور کربھی رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت(وفاقی اور صوبائی حکومتوں)اور ان اداروں کے درمیان مزید تعاون کا نظام وضع کیا جاتا۔ بہرطور جو ہونا تھا وہ ہوچکا، مشکلات اور مسائل موجود ہیں مناسب ترین بات ہوگی اگر اب بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں خدمت خلق میںمصروف ملکی صوبائی اور علاقائی سطح کے فعال اداروں کیساتھ ملکر قابل عمل حکمت عملی وضع کرلیں۔یہ امر کسی بھی طور نظرانداز نہیںکیا جا سکتا کہ صورتحال دن بدن گمبھیر ہوتی جارہی ہے، ٹیکس ریونیو میں 15کھرب کے شارٹ فال کا امکان ہے۔اس ایک مثال سے بہت کچھ سمجھنے، سیکھنے اور اقدامات کی ضرورت بہت اہم ہے۔ متعدد اقدامات جو اب کئے جارہے ہیںانہیں15سے20 دن قبل ہوجانا چاہیے تھا، یہاں اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے ضروری اقدامات کے حوالے سے طاقتور ترین ممالک بھی بے بس ہیں، پاکستان ان کے مقابلہ میں کہیں کم وسائل کا حامل ملک ہے۔ہمارے ہاں اس وبا سے نمٹنے کیلئے حکومت اور تمام طبقات کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ملک میں اب تک کورونا کے مریضوں کی تعداد4230ہوچکی ہے جبکہ60اموات ہوئی ہیں طب کے شعبہ کے بعض ماہرین اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیںکورونا کا پھیلائو مصدقہ کیسز سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے، ان کی اس رائے کو اسلئے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں نظام صحت جدید خطوط پر استوار نہیں، خدانخواستہ اگر وبا میں پھیلائو آتا ہے تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔گونظام صحت کو بہتر بنانے کے اقدامات طویل المدتی حکمت عملی اور وسائل کے متقاضی ہیں البتہ فی الوقت ہنگامی بنیادوں پر جن اقدامات کی ضرورت ہے انہیں نظرانداز نہ کیا جائے۔عوام کے جان ومال کے تحفظ اور مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے حکومت آنے والے دنوں میں جو بھی اقدامات مناسب سمجھے وہ اُٹھائے،یہاں اس امر کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ ملک بھر میں صحت کے شعبہ سے منسلک افراد حفاظتی سامان کی عدم فراہمی کی شکایات کر رہے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان شکایات کو ان کا مسئلہ بنانے کی بجائے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیکھیں اور دور کریں۔اس طرح عوام الناس کا بھی فرض ہے کہ وہ اس حوالے سے اعلان کردہ قواعدوضوابط پر عمل کو یقینی بنائیں تاکہ خود ان کے آنے والے دنوں کی زندگی محفوظ رہے۔

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟