2 130

مشرقیات

ایک مرتبہ امام شافعی’ امام مالک بن انس کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور امام مالک سے کہنے لگا کہ میں قمریوں (پرندوں) کی تجارت کرتا ہوں یعنی قمری بیچتا ہوں۔ چنانچہ میں نے ایک دن ایک صاحب کو قمری فروخت کی۔ مگر ان صاحب نے یہ کہہ کر قمری کو واپس کردیا کہ یہ آواز نہیں کرتی’ یعنی بولتی نہیں۔ پس میں نے قسم کھائی کہ اگر قمری برابر آواز نہ کرے تو میری بیوی پر طلاق ہے۔ اب چونکہ قمری ہر وقت تو نہیں بولتی تو کیا اس قسم کی وجہ سے میری بیوی کو طلاق ہوگئی یا نہیں؟
یہ سوال سن کر امام مالک نے اس شخص سے فرمایا کہ تمہاری بیوی کو طلاق ہوگئی اور تمہارے لئے اب کوئی چارہ نہیں۔
امام شافعی جو پوری گفتگو کو سن رہے تھے انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تمہاری قمری اکثر وقت آواز کرتی رہتی ہے؟ اس شخص نے اثبات میں جواب دیا تو امام شافعی نے کہا کہ جب تمہاری قمری اکثر وقت آواز کرتی رہتی ہے تو تمہاری بیوی کو طلاق نہیں ہوئی۔
اس وقت امام شافعی کی عمر صرف چودہ سال تھی۔ امام مالک کو جب امام شافعی کے اس جواب کا علم ہوا تو آپ نے امام شافعی کو بلا کر پوچھا کہ ” لڑکے! تم نے کیسے فتویٰ دیا اور تم کو یہ بات کہاں سے حاصل ہوئی؟”
امام شافعی نے فرمایا کہ بے شک آپ نے ہی مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ زہری نے ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے ‘ ابی سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس نے حضور اکرمۖ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھ کو ابو جہم اور معاویہ نے پیغامات( شادی کے پیغام) ارسال کئے ہیں۔ (اب آپ کی کیا رائے ہے،میں ان میں سے کس سے شادی کروں؟)
آپۖ نے فرمایا کہ معاویہ’ فقیر محتاج شخص ہے اور اس کے پاس کچھ بھی (مال) نہیں ہے اور رہے ابو جہم تو وہ اپنی گردن سے کبھی لاٹھی نہیں رکھتے ( نہیں اتارتے’ یعنی ہر وقت مارنے پر تیار رہتے ہیں) چنانچہ آنحضورۖ کا یہ قول جس میں آپۖ نے ابو جہم کے لئے ”لا فضع عصاہ” استعمال کیا’ یہ مجازاً استعمال فرمایا ہے حالانکہ آنحضورۖ کو علم تھاکہ ابو جہم کھاتے ہیں’ سوتے اور آرام کرنے کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی بھی پوری کرتے ہیں’ ظاہر بات ہے اس دوران تو وہ اپنی لاٹھی نیچے ہی رکھتے ہوں گے۔ مگر چونکہ اہل عرب دو فعل میں سے اغلب فعل کو مانند مداومت قرار دیتے ہیں اس لئے میں نے بھی ایسا ہی کیا اور اسی حدیث سے استدلال کیا۔ کیونکہ اس شخص کی قمری اکثر وقت (چپ رہنے کے مقابلے میں) آواز کرتی ہے اس لئے میں نے اس کے دو فعل میں سے اغلب فعل کو دائمی قرار دیا۔ امام مالک نے امام شافعی کے اس استدلال کو سن کر بڑے متعجب ہوئے اور امام شافعی سے فرمایا کہ اب تم کو فتویٰ دینے کی اجازت ہے۔ چنانچہ امام شافعی نے چودہ سال کی عمر سے فتویٰ دینا شروع کردیا تھا۔
(حیوات الحیوان جلد دوئم)

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ