1 93

کورونا کے بعد کے حالات

کورونا وائر نے ہماری زندگیوں کو کچھ اس طور متاثر کیا کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ پوری انسانیت پر ہمیشہ کیلئے ہی اپنا نشان ثبت کر جائے گا۔ اگرچہ ہم اس وائرس کے دنیا پر چھوڑے جانے کے اثرات کے حوالے سے کوئی مستند پیش گوئی تو نہیں کر سکتے البتہ یہ بات تو طے ہے کہ اس کے بعد ہماری زندگیاں بہت حد تک بدل چکی ہوں گی۔ اب یہ بدلاؤ اور تبدیلیاں کس طرح کی ہوں گی اس کا جواب دینا بہت ہی مشکل ہے، البتہ حال ہی میں ہونے والے کچھ واقعات سے ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے کچھ سراغ ملتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کا ادراک ہو جانا چاہئے کہ معاشی ابتری آنے کا امکان نہیں، یہ آچکی ہے۔ پوری دنیا میں ہونے والی تالہ بندیوں اور کاروبار ٹھپ ہونے کے باعث اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں بچی کہ ہم باقاعدہ ایک معاشی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس معاشی ابتری کے دو نتائج نکلیں گے۔ پہلا نقصان تو ہمیں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا جبکہ دوسرا لوگوں کی آمدن اور پیداوار میں کمی کی صورت ہوگا۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس وائرس کے نتیجے میں جنم لینے والے معاشی نقصانات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو زیادہ شدت سے بھگتنا پڑیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے سرمائے کے بل بوتے پر کاروبار بند رہنے کے باوجود کچھ عرصہ تک تمام اخراجات برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ اور یورپ کے کچھ ممالک کی جانب سے اپنے عوام کیلئے جاری کردہ معاشی ریلیف پیکج اسی بات کا ثبوت ہیں۔ امریکہ کی جانب سے اعلان کردہ معاشی پیکج کا کل حجم دوکھرب ڈالر ہے جو ان کے کل جی ڈی پی کے دس فیصد کے برابر رقم بنتی ہے۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک کے پاس اتنی معاشی آسودگی نہیں کہ وہ اپنے عوام کو گھر بیٹھے پال سکیں۔
ایسی صورتحال پاکستان جیسے ممالک کو ایسے دو راہے پر لاکھڑا کرتی ہے جہاں وہ ناقابل برداشت تالہ بندی یا پھر وائرس سے متاثر ہوکر کثیر جانی نقصان میں سے کسی ایک کو چننے کیلئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ ابھی تک تو ایسے ممالک میں سے بیشتر نے وائرس کی روک تھام کی اُمید میں تالہ بندی کی راہ ہی چنی ہے۔ پر اگر آنے والے دنوں میں تالہ بندیوں کے باوجود کورونا وائرس کا پھیلاؤ نہ رکا تو پاکستان جیسے ممالک اپنی معیشت کے کچھ حصے کھول دینے پر مجبور ہو جائیں گے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ترقی پذیر ممالک کے بڑے جانی نقصان اُٹھانے کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔ ان کی بنیادی وجہ ان ممالک کی دگرگوں طبی سہولیات اور سقم زدہ نظام صحت ہے۔ صورتحال یہی رہی تو پوری دنیا نقصان کا سامنا کرے گی اور اس نقصان کو برداشت کرنیوالی بڑی شرح ترقی پذیر ممالک کی ہوگی۔
دوسرا اہم نقطہ یہ کہ ہم نے اس بحران کے دوران دنیا بھر میں حکومتوں کو اپنی طاقت واختیار کا ایسا بے دریغ استعمال کرتے دیکھا ہے جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی اور یہ روش وائرس کے بعد کی صورتحال میں حکومتی کارکردگی پر کئی طرح کے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ دنیا بھر میں آزاد نقل وحمل اور مذہبی امور کی انجام دہی کے بنیادی اور ناگزیر سمجھے جانے والے حقوق فی الوقت غیراہم سمجھے جانے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرقی ایشیاء میں وائرس سے نمٹنے کی جنگ کے دوران ڈیٹا پرائیویسی کو بڑے پیمانے پر نظرانداز کر دیا گیا۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا طاقت کا ایسا استعمال آئندہ آنے والے وقت میں حکومتوں کے طرزعمل کو بدل کر رکھ دے گا؟ کیونکہ آج جیسی ہنگامی حالت میں حکومت کی طرف سے بنیادی حقوق معطل کئے جانے کی روش آنے والے دور میں دوسرے مقاصد کیلئے بھی اسی طرح طاقت کے استعمال اور پابندیوں کی راہ کھول سکتی ہے۔ فی الوقت تو کئی حکومتی پابندیاں وقت کی ضرورت ہے مگر اس خدشے سے روگردانی ممکن نہیں اس کے بعد مستقبل میں ہم حکومتی طاقت واختیار کا غلط اور ناجائز استعمال بھی ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔
تیسرا اہم پہلو عالمگیریت اور بین الاقوامی تجارت ورابطے سے متعلق ہے۔ ممکن ہے کہ وباء کے اختتام کے بعد اس سارے نظم کو شدید زک پہنچے۔ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا کہ کورونا وائرس کے پوری دنیا میں پھیلنے کا سبب یہی باہمی طور پر مربوط نظام تھا۔ اسی باہمی مربوطیت کے باعث دنیا بھر میں تجارتی مال کی نقل وحمل بھی مفلوج ہوئی جس کے نتیجے میں دنیا بھر کی حکومتیں وباء کے بعد اس عالمگیر مربوطیت اور تجارت کو محدود کرنے کا فیصلہ کرنے کے بارے میں سوچ وبچار شروع کر دیں۔ مثال کے طور پر عین ممکن ہے کہ وباء کے اختتام پر دنیا بھر کی حکومتیں روزمرہ کی اشیاء ضروریہ اپنے اپنے ممالک میں ہی بنانے کا فیصلہ کرلیں چاہے انہیں اس کی زیادہ لاگت ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑ ے۔ اس سب کا زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ عالمی رہنما وباء کے بعد کس طرح کا ردعمل دیتے ہیں اور وہ عالمی اقدار سے کس حد تک جڑے رہنے کیلئے پرعزم رہتے ہیں۔ چوتھا اور اہم نقطہ اس امکان پر منتج ہے کہ وباء کے بعد دنیا کی طاقت اور برتری کا مرکز مغرب سے بدل کے مشرقی ایشیاء بن سکتا ہے۔ وائرس کے حملے کی دوسری لہر کے امکان کو ایک طرف رکھا جائے تو چین، جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور جیسے ممالک نے وباء کے ردعمل کیلئے مغربی ممالک کی نسبت نہایت قلیل وقت ہونے کے باوجود اس کے پھیلاؤ کو روکنے کیساتھ اس پر قابو پاکر اپنی قابلیت اور مؤثر حکمرانی کا ثبوت دنیا کو دیدیا ہے۔ اگرچہ دنیا میں طاقت کے مراکز میں تغیر اس قدر جلد ممکن نہیں البتہ کورونا وائرس سے جنم لینی والی صورتحال اس عمل کو تیز تر کرنے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ چار بڑی ممکنہ تبدیلیاں اس عالمی بحران کے اختتام پر ایک نئی دنیا کو جنم دینے کا سبب بن سکتی ہیں گوکہ یہ تبدیلیاں نہایت خوفزدہ کر دینے والی معلوم ہوتی ہیں البتہ بہتر یہی ہے کہ ہم ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ابھی سے تیاری شروع کردیں۔ کیا معلوم ہمیں کب اس نئے جہاں سے پالا پڑ جائے۔
(بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟