3 68

امداد، امداد، انگوراڈہ سرحد اورخاصہ دار فورس

بینظیر انکم سپورٹ کے کارڈوں کی بندش اور احساس پروگرام کی امداد سے محرومی کی اتنی شکایات آرہی ہیں کہ بعض اوقات نمبر بند کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے، پھر دل کو قرار نہیں آتا بساط بھر لوگوں کو تسلی ہی دے سکتی ہوں اور یہی کر لیتی ہوں۔ اکثر فریادیں ایسی ہوتی ہیں کہ دل پسیج جاتا ہے، بعض لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہی نمبر احساس پروگرام کا ہے اور بینظیر سپورٹ سے محرومی وبندش بارے شکایات کا ازالہ بھی اسی نمبر سے ہوتا ہے۔ میں اس امر کی وضاحت کردوں کہ یہ نمبر صرف اس کالم میں عوامی شکایات حکام تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے، مستحقین اپنے علاقائی دفاتر سے رجوع کریں جو لوگ مقامی طور پر ان کا مسئلہ حل کرا سکتے ہیں اور ان کی مدد کر سکتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ وہ ان کی رہنمائی کریں
ایک شکایت یارخون ڈزگ اپر چترال کے ثروت علی سے لیکر خویشگی نوشہرہ کی خاتون تک سبھی کو ہے اور حیرت انگیز طور پر الفاظ میں بھی مماثلت ہے، وہ یہ کہ علاقے کے غیرمستحق سرکاری ملازمین کے اہلخانہ اور بااثر افراد کو اب بھی وظیفہ مل رہا ہے اور مستحقین محروم ہیں، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ حکام اس شکایت کو مزید الزام نہ جانیں اور کوشش کریں کہ اس کی تحقیقات کے بعد مستحقین کے ناموںکو شامل اور غیرمستحق افراد کے نام خارج کر دیں۔
ایک مبہم سی اپیل وانا بازار میں محصور اور علاقے میں موجود سرحد کی بندش کے باعث پھنسے ہوئے افغان باشندوں کی وطن واپسی کیلئے انگور اڈاہ گیٹ صرف ان کی واپسی کیلئے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، برقی پیغام میں کہا گیا ہے کہ گیٹ دو تین دن کیلئے کھولا جائے تو ان کی واپسی ہوگی اور علاقہ وانا کے لوگوںکو ان سے جو خدشات اور مشکلات درپیش ہیں ان کا ازالہ ہوگا اور افغان باشندے اپنے گھروں کو جاسکیں گے۔ میرے خیال میں مطالبہ مناسب اور قابل توجہ ہے، حکام کوشش کریں تو اس کا انتظام مشکل کام نہیں۔
ایک قاری نے پشاور میں دفعہ144 کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور حکام کی ناکامی کی طرف توجہ دلائی ہے بہرحال اب تو سرکاری طور پر لاک ڈائون کا جزوی خاتمہ ہوا ہے، باقی کی کسر لوگ خود پورا کرلیں گے، بس ہر شخص خود ہی شعور کا مظاہرہ کرے، غیرضروری طور پر گھر سے نہ نکلے، جو لوگ مجبوراً گھر سے نکلیں وہ حددرجہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ غیرضروری طور پر گھر سے نکلنے کا مطلب اپنے آپ،اہل خانہ اور پورے محلے کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اس بات کی سمجھ آجائے تو حکومت کو سختی کرنے کی ضرورت نہ پڑے، حکومت آخر کرے گی کیا کیا اور کب تک، لوگ خود بھی ذرا احساس کریں۔
ضلع خیبر سے کمیونٹی سکول کے ٹیچرنجیب نے کمیونٹی سکولوں کے اساتذہ کو مستقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، لگتا ہے کہ کمیونٹی سکولز کے اساتذہ کو تنخواہیں ملنا شروع ہوگئی ہیں، کچھ عرصہ قبل تک تو ہر کالم کیلئے ان کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی شکایات آتی رہی ہیں، فی الوقت حکومت جس دبائو اور مشکلات کا شکار ہے اس میںتنخواہوں کی ادائیگی ہوسکے تو غنیمت سمجھنا چاہئے، بہرحال ان کا مطالبہ ملازمت کی شرائط اور امکانات میںسے ہو تو اس پرغور ہونا چاہئے۔
ایک مرتبہ پھر اس شکایت پر مبنی برقی پیغام سامنے آیا ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک خاتون ہیں جنہیں احساس پروگرام سے پیغام آیا ہے کہ وہ امداد کی اہل نہیں، خاتون کا کہنا ہے کہ ان کا کچا کرائے کا گھر ہے، چار بچے ہیں، مشکل سے گزارہ ہوتا ہے، شوہر نشے کا عادی ہے افسوس اس شوہر پر ہے جسے نشے کی لت ہے، ظاہر ہے اسے رقم ملے اور وہ خود محنت مزدوری کرے تو اس کی اولین ترجیح بیوی بچے نہیں نشہ ہوگا۔ مجھے اس خاتون کی حالت پر ترس آتا ہے، غربت وتنگدسی اور ساتھ شوہر نشے کا عادی، دعا ہی کر سکتی ہوں۔
منگا مردان (یہ وہ علاقہ ہے جو حالیہ کرونا وائرس سے متاثر ہوا اور اب لاک ڈائون ہٹا دیا گیا ہے) سے قراة العین کی شکایت ہے کہ وہ ایم فل ہیں اور پی ای ٹی (ٹیچر) ہیں، حکومت کی طرف سے اعلان کے باوجود ان کو ایم فل الاؤنس نہیں مل رہا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ اب وہ ایس ایس ٹی بن چکی ہیں، بہرحال سرکار کے اعلان کے مطابق ایم فل الاؤنس کا استحقاق رکھتی ہیں۔ معلوم نہیں اس طرح کتنے اور اساتذہ کا یہ مسئلہ ہوگا، اس بارے حکومتی پالیسی کی پابندی ہونی چاہئے۔تخت بھائی سے ایک قاری نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر اے سی تخت بھائی اور پولیس کی کارروائی کی شکایت کی ہے، یہاں قانون کی پابندی کرانا بھی مشکل ہے لوگ سمجھتے نہیں۔ لاک ڈائون کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی نہ کی جائے تو سرکار اور کیا کرے۔ایک مرتبہ پھر احساس پروگرام بارے برقی پیغام ہے، شیرعلی کلے صوابی سے انورعلی کہتے ہیں کہ اگراحساس پروگرام کی تقسیم کاعمل پی ٹی آئی والوں کے سپرد ہے تو پھر مستحقین، محروم اورنادار افراد کو امداد کی توقع ہی نہیں رکھنی چاہئے۔ میرے خیال میں یہ پیغام مبالغہ آرائی اور جذباتی ہے، تھوڑی بہت ناانصافی اور اقربا پروری کی گنجائش ضرور رہتی ہے مگر احساس پروگرام کی خاتون سربراہ جس طرح جان لڑا رہی ہیں اس سے تو قع ہے کہ زیادہ سے زیادہ نادار افراد مستفید ہوسکیں گے۔ضلع مہمند سے عظیم نے خاصہ داروں کے ابھی تک پولیس میں ضم نہ ہونے کا مسئلہ اُٹھایا ہے۔حکومت کے اعلان کے بعد ممکن ہے ضابطے کی کارروائی میں تاخیر ہوئی ہو، وگرنہ اس بارے میں بار بار مطالبات اور احتجاج پر حکومت فیصلہ واعلان کر چکی ہے۔ اُمید ہے کہ مسئلہ حل ہوگا اور خاصہ داروں کو وعدے کے مطابق پولیس میں طے شدہ طریقہ کار کے تحت ضم کردیا جائیگا۔ اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 03379750639 پر میسج کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے