5 66

عہدکورونا میں دو متضاد تصویریں

پاکستان میں ان دنوں ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں الخدمت کے رضاکار کورونا سے بچاؤ کی مہم کے دوران ایک مندر میں ہندوؤں کی لکشمی دیوی کے بت کو کورونا سے پاک کرنے کیلئے سپرے کر رہے ہیں۔ الخدمت پاکستان کی سب سے منظم مذہبی جماعت کی ذیلی تنظیم ہے۔ الخدمت کے رضاکاروں کیلئے یہ شاید ایک مجسمہ ہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی رائے پوچھی جائے تو شاید اس سے بھی آگے بہت کچھ ہو مگر اپنے فرض اور جذبے کے ہاتھوں مغلوب ہو کر وہ اپنے جذبات، نظریات اور احساسات کو کسی صحرا میں دھکیل کر مندر میں اس بت کی صفائی کر رہے ہیں کیونکہ اس سے بھی کچھ انسانوں کے نظریات اور جذبات وعقائد وابستہ ہیں۔ ایک مسلمان اکثریتی معاشرے اور ریاست میں یہی اسلام کی روح ہے جہاں اقلیتوں کو ایک مقدس امانت کا درجہ حاصل ہے۔ یہ پاکستان کا منظر اور تصویر ہے جسے گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا میں عدم برداشت سے وابستہ ہر الزام، دشنام سے نوازا گیا۔ یہ تصویر اس بات کا پتا دیتی ہے کہ ہمارا مجموعی معاشرہ اب فطرت کے اصول یعنی تنوع کو قبول کرتا جا رہا ہے۔ تنوع اس کائنات کو عطاکردہ فطرت کا حسن ہے، خالق کائنات کی پہنائی ہوئی خلعت ہے جسے انسان نے مختلف جذبات کے تحت ہر دور میں تارتار کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف برطانیہ کے معروف اخبار گارجین میں چھپنے والی ایک کہانی ہے۔ اس کہانی میں محبوب علی نامی مرکزی کردار کی تصویر تو نہیں مگر یہ بھارت کی اکثریت کی مجموعی سوچ کی ایک مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔ کتابی حد تک اورکہنے کو بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ ایک مدت تک بھارت کے جس آئین کو سیکولر کہا جاتا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اور راجیہ سبھا کے رکن سبرامنین سوامی نے حال میں یہ کہہ کر بھارتی آئین میں مسلمانوں کو برابری کے حقوق حاصل نہیں کیونکہ برابر حقوق برابر والوں کو ملتے ہیں، وہ بھرم بھی نہیں باقی نہیں رہنے دیا۔ وہ صاف لفظوں میں کہہ گئے کہ مسلمان اور ہندو چونکہ برابر نہیں اسلئے آئین میں ان کے حقوق بھی برابر نہیں۔ گارجین میں شائع ہونے والی کہانی سے بھارت کی بننے والی تصویر لکشمی دیوی کے مجسمے کی صفائی سے قطعی متضاد تصویر بنتی ہے۔ اس تصویر پر سب سے مناسب عنوان ”تنوع کی موت” ہی جچتا ہے جس معاشرے میں تنوع کی حقیقت کو قبول اور ہضم کرنے کا رجحان کمزور ہوتا ہے وہاں تنوع کیساتھ بہت سے روایتیں اور اچھائیاں مر جاتی ہیں، وہ معاشرہ اپنی پوشیدہ طاقت کھو کر ایک خول میں بند ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ2003 میں بھارت کے ایک طویل سفر کے دوران دہلی کی ایک تقریب کے بعد ایک ہندو دانشور ہمارے وفد کا سواگت کھلی بانہوں سے کرتے ہوئے فخریہ انداز میں گویا ہوئے تھے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی اس کا تنوع رہا۔ کورونا کا غلغلہ ابھی دھیمے سروں میں ہی بلند ہوا کہ بھارت کی تبلیغی جماعت نے دہلی کے نظام الدین ایریا میں پہلے سے طے شدہ اپنا اجتماع منعقد کیا اور اس کیلئے دہلی انتظامیہ کی اجازت بھی حاصل کی گئی۔ اجتماع ختم ہوا تو کورونا کا شور کچھ بڑھ گیا تھا۔ دہلی پولیس نے رپورٹ دی کہ بھارت میں کورونا کے پھیلاؤ کی واحد وجہ تبلیغی اجتماع ہے۔ اس رپورٹ کے بعد بات کا وہ افسانہ بن گیا جو گلی گلی گرم کیک کی طرح فروخت ہوتا چلا گیا۔ ہندو ذہن کے جو ارمان کئی مسلمان مخالف مہمات میں پوری طرح نکلے نہیں تھے اب نکالنے کا موقع مل گیا۔ فوری طور پر یہ فلسفہ گھڑا گیا کہ مسلمان جان بوجھ کر ہندو اکثریت کو کورونا کا شکار کرنا چاہتے ہیں اس کیلئے خوراک کے ذخیروں اور پانی کے ٹینکوں میں تھوکتے ہیں۔ اس مہم کا ایک نام بھی تجویز کیا گیا اور اسے ”کورونا جہاد” اور اس کے تصوراتی مجاہدین کو ”کورونا ٹیررسٹ” کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد بھارت کی دس ریاستوں نے اعلان کیا کہ جو شخص تبلیغی اجتماع سے واپس آنے والے کسی شخص کی نشاندہی کریگا اسے دس ہزار روپے انعام دیا جائیگا۔ اس کیساتھ ہی مسلمانوں کیساتھ کاروباری مقاطع کی مہم شروع ہوگئی اور گلی محلوں میں مسلمان محنت کشوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ مہم اس قدر بڑھی کہ بھارت کے سائنسدانوں کو ترس آگیا اور انہوں نے بیان جاری کرکے کہا کہ تبلیغی اجتماع بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا واحد ذریعہ اور وجہ نہیں۔ گارجین کے مطابق اس دوران ایک ایسے بائیس سالہ نوجوان کی ویڈیو وائرل ہوئی جو ایک ہجوم میں گھرا ہوا ہے اور ہجوم اسے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اصرار کر رہا ہے کہ تمہارے پیچھے کون ہے؟ یہ محبوب علی ہے جو تبلیغی اجتماع سے لوٹ آیا تھا اور ڈاکٹروں نے اسے مقررہ مدت تک کورنٹائن کرنے کے بعد میں چھوڑ دیا تھا۔ ہجوم محبوب علی کو مندر لے گیا اور اسے کہا گیا کہ وہ اسلام چھوڑ کر ہندومت قبول کرنے کا اعلان کرے۔ محبوب علی نے یہ اعلان کیا یا نہیں گارجین نے یہ بات نہیں لکھی۔ ایک طرف فوٹوگرافر کے کیمرے سے بننے والی پاکستان کی تصویر تو دوسری طرف اخبار کے مضمون سے بننے والی تصویریں دومتضاد رویوں کی ہی نہیں دومتضاد راستوں اور متضاد منزلوں اور متضاد نتائج کی کہانی سنا رہی ہیں۔ گارجین کی تصویر اور خاکہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری، ایسی بہت سی تصویریں اور تحریریں آتی رہیں مگر ہمیں اپنی مندر والی تصویر پر قائم بھی رہنا ہے اور اسی پر فخر بھی کرنا ہے اور ایسی کسی تصویر کے جواب میں اپنا شعور اور شعار ترک نہیں کرنا۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''