5 67

ترے سوال کا ہر گز نہیں ملال مجھے

زندگی نام ہے مسلسل آگے بڑھنے کا اپنی لیے نت نئی راہیں تلاش کرنے کا مخلوق خدا کے لیے آسانیاں تلاش کرنے کا دوسروں کو سکھ دینے کا بنی نوع انسان کے کام آنے کایہ ایک طویل فہرست ہے آپ سوچتے جائیے تو بہت سی باتیں آپ کے ذہن میں آتی چلی جائیں گی۔ اس حوالے سے بہت سا لٹریچر لکھا جا چکا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے خاص طور پر ہماری نوجوان نسل کو اس قسم کی کتابیں ضرور پڑھنی چاہییںکیونکہ زمانہ ان کا ہے آنے والے وقت میں ان کے لیے بہت سے امکانات ہیں محنت تحقیق جستجو زندگی میں کچھ کرنے کا جذبہ یہی وہ باتیں ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ترقی کی جاسکتی ہے کسی بھی ملازمت کے حصول کے لیے انٹرویو ایک لازمی شرط ہے ۔ہمارے یہاں انٹرویو کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تربیت کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے جب امیدوار انٹرویو دینے کے لیے تشریف لاتا ہے تو اس کے ہاتھ پائوں لرز رہے ہوتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے طلبہ دوران تعلیم مکالمے سے بہت دور رہتے ہیں اساتذہ پڑھاتے ہیں اور یہ خاموشی سے استاد کا لیکچر سنتے رہتے ہیں بہت کم طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اساتذہ سے پوچھتے ہیں فی زمانہ بڑی خوشگوار تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں طلبہ کمپیوٹراور نیٹ پر کام کرنے کی وجہ سے اچھی خاصی معلومات بھی حا صل کر رہے ہیں لیکن پھربھی صورتحال اتنی خوش آئند نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی کتاب سے دوری ہے۔انٹرویو کے حوالے سے طلبہ مختلف ذرائع سے بڑی اوٹ پٹانگ قسم کی باتیں سیکھ کر آتے ہیں ۔ یہ ساری معلومات سینہ در سینہ آگے منتقل ہوتی رہتی ہے اور یہ ان سنی سنائی باتوں پر بڑے جوش و خروش سے عمل کرتے ہوئے انٹرویو میں فیل ہو جاتے ہیں۔ انٹرویو کی ایک قسم وہ بھی ہے جس میں امیدوار کے ساتھ ادھر ادھر کی دو چار باتیں کر کے اسے فارغ کر دیا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے ان پوسٹوں پر پہلے ہی سے اپنے منظور نظر لے رکھے ہوتے ہیں ۔ اب آتے ہیں سچ مچ کے انٹرویو کی طرف بہت سے امیدوار وں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یار بس رکنا نہیں ہے زبان چلتی رہے رام بھلی کرے گا اگر سوال کا جواب نہیں بھی آتا تو کوئی مضائقہ نہیں بس کچھ نہ کچھ کہتے رہو۔ایک نوجوان سے کہا گیا کہ بیٹا انٹرویو کی تیاری تو یقینا کی ہو گی جنا ب کتا ب تو اپنا اوڑھنا بچھونا ہے بہت کچھ پڑھا ہوا ہے۔اچھا یہ بتائیے کہ آپ کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں ۔ جناب نسیم حجازی کے تمام نا ول پڑھ چکا ہوں ہماری ملاقات سنجیدہ مطالعے سے تھی۔ ان ناولوں کے علاوہ بھی کچھ پڑھا ہے ۔ اب سوال پوچھا گیا کہ آپ کے نصاب میں شامل فلاں کتاب کے مولئفین کے نام بتا دیجیے تو حضرت با آواز بلند کہنے لگے جناب مصنف تو سنا ہے یہ مولئف کیا ہوتا ہے۔
اس قسم کی صورتحال ہوتی ہے :
ترے سوال کا ہر گز نہیں ملال مجھے
ترے سوال سے نکلے مرے سوال کا ہے
یہ کالم ان شہزادوں کے حوالے سے ہے جو کتاب کھول کر دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کچھ امیدوار دوران انٹرویو آپ کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں ان سے اس میدان کے پرانے جغادریوں نے کہہ رکھا ہوتا ہے کہ یار انٹرویو دینا تو ایک آرٹ ہے کوشش کرو کہ انٹرویو لینے والوں کو اپنی پسند کے موضوع کی طرف لے آئو بس پھر بیڑا پار سمجھو۔صورتحال کچھ یوں ہوتی ہے کہ فرض کریں آپ نے پاکستان ریلوے کے بارے میں سوال پوچھا اب ان کو اس حوالے سے کوئی علم نہیں تو وہ بڑی پھرتی سے کہتے ہیں کہ جناب سوال تو اچھا ہے آج کل ریلوے بھی رو بہ زوال ہے لیکن میں آپ کو جدید زمانے کی انتہائی جدید سواری کے بارے میں بتا تا ہوں اب دیکھیے پی آئی اے ہماری قومی ائر لائن ہے لیکن۔۔ ہم ان کی بات درمیان سے اچکتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو پوچھا جارہا ہے اس کے بار ے میں بتا ئیے۔ایک امید وار بڑی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے ہم نے ان سے کہا کہ اپنی مرضی کا کوئی شعر سنائو تو ہماری طرف خاموشی سے دیکھنے لگے ہم نے کہا بھائی آپ نے اردو میں ایم اے کیا ہوا ہے ہم نے تو صرف ایک شعر سنانے کی فرمائش کی ہے غزل نہیں نظم بھی نہیں صرف ایک شعر وہ صاحب ہمیں ایک شعر بھی نہ سنا سکے۔انٹرویو کے حوالے سے ایک بڑی واضح اور سیدھی سی بات ہے کہ جس سوال کا جواب معلوم ہے بتا دیں اور اگر نہیں آتا تو کہہ دیں کہ نہیں معلوم آخر سچ بولنے میںکیا قباحت ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کی شخصیت کا ایک خوشگوار تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ انٹرویو کے دوران آپ سے یہ توقع کبھی بھی نہیں رکھی جاتی کہ آپ تمام سوالات کے صحیح جوابات دیں گے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے مضمون سے کتنی دلچسپی ہے اور آپ نے اپنے مضمون کا مطالعہ کر رکھا ہے یا ایم اے پاس کرنے کے بعد کبھی کتاب کو ہاتھ ہی نہیں لگایا!اخبارات کا مطالعہ کرنے سے تازہ ترین معلومات ملتی رہتی ہیں اس کے علاوہ بہت سی ایسی کتابیں موجود ہیں جنھیں پڑھ کر آپ اپنے علم میں اچھا خاصہ اضافہ کر سکتے ہیں پشاور کے عجائب گھر کے پہلو میں آرکائیوز پبلک لائبریری موجود ہے جو طلبہ کے لیے اپنے دامن میں بہت سی اچھی کتابیں رکھتی ہے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے طالب علم اور کتاب کا تو چولی دامن کا ساتھ ہونا چاہیے اگر طالب علم کتاب سے دور رہے تو پھر وہ کامیابی سے بھی دور رہتا ہے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ