3 70

سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں

سیاست کے خار زار میں بھٹکنے’ خجل خوار ہونے اور بہ مشکل ( وہ بھی کبھی کبھی) گوہر مقصود حاصل کرنے سے بہتر تو اس کاروبار کے گلزار میں گھومتے ہوئے قدم قدم پر کامیابیاں سمیٹنا زیادہ بہتر ہے جہاں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آنے کا سوفیصد یقین رہتا ہے’ یعنی دم درود’ تعویذ گنڈے اور ضرورت پڑے تو بنگال کا کالا جادو کے بینرز لگاتے ہوئے اس پر انسانی کھوپڑی اور کھوپڑے کے دائیں بائیں دو ہڈیاں کراس کی صورت کی تصویر ضروری ہوتا ہے۔ ایسے ”ماہرین تعویذات” آپ کو ہر شہر’ قصبے’ گاؤں میں بھی مل جاتے ہیں تاہم بینرز لگانے کا تکلف صرف شہروں کے ایسے ماہرین ہی کرتے ہیں جبکہ دیہات میں جو لوگ دم درود یعنی تعویذ گنڈے کاکام کرتے ہیں ان کی شہرت زبانی طور پر سفر کرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہے۔یوں ان خودساختہ ماہرین کا کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا ہے’ بعض صورتوں میں ان ماہرین کو اپنے لئے ایسے ایجنٹ بھی مقرر کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے( وہ بھی ابتداء میں) جو ان کے ”پہنچے ہونے یعنی ماہر ہونے” کی کہانیاں ادھر ادھر سنا کر ضرورت مندوں کی توجہ دلاکر ان کے کاروبار کو چار چاند لگانے میں مددگار ہوتے ہیں تاہم ایک بار کاروبار چمک جائے تو پھر ایجنٹوں سے زیادہ عام سادہ لوح خواتین اور بعض ضعیف الاعتقاد مرد یہ کام ازخود یعنی خدا واسطے کرتے رہتے ہیں اور سائلوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ان سے دم کرانے ان کے ”آستانہ عالیہ” پر نظر آتے ہیں۔ ملک میں ایسے جھاڑ پھونک کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے اس بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تاوقتیکہ کوئی باقاعدہ سروے نہ کیا جائے’ تاہم اتنا دعویٰ ہم ضرور کرسکتے ہیں کہ ان ماہرین گنڈہ وتعویذ اور دم درود والوں میں ایک اضافہ ہو چکا ہے اور میدان میں خم ٹھونک کر وارد ہوتے ہی انہوں نے دعویٰ کر دیا ہے کہ ان کے دم کرنے سے ہی شہباز شریف گرفتاری سے بچ گئے ہیں۔ جی ہاں اپنے فرزند راولپنڈی شیخ رشید مدظلہ نے گزشتہ روز شہباز شریف پر دم کرکے ان کو نیب کے ممکنہ چنگل سے بچانے کا دعویٰ کیا جس کے بعد اُمید ہو چلی ہے کہ وہ جب بھی وزارت اور سیاست سے فارغ ہوئے تو اپنی لال حویلی پر وہ ایک بڑا بینر لگوا کر دم درود والا کاروبار جمانے کے بارے میں ضرور سوچیں گے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو آنے والے دور میں عاشقان نامراد سے زیادہ ”مبتلائے سیاست دوراں” کے مریضوں کا اس قدر رش رہے گا کہ انہیں ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں رہے گی اور ان کے ”سیاسی تعویذات” کی اس قدر دھوم ہوگی کہ ملک کے کونے کونے سے ”تازہ واردان بساط ہوائے سیاست” ان سے ملاقات کیلئے بے چین وبے قرار بلکہ مضطرب رہیں گے کہ کب ان کی قسمت یاوری کرتی ہے اور انہیں ”درآستانہ رشیدیہ” کا پروانہ ملتا ہے۔ اس موقع پر کرنل شفیق الرحمن (بعد میں میجر جنرل ریٹائر ہوئے) کی تحریروں کے ایک کردار شیطان کی یاد آئی جو ایک موقع پر ایک عاشق کو محبت میں کامیابی کیلئے کسی پہنچے ہوئے ماہر سے تعویذ لاکر دیتا ہے اور ساتھ ہی کچھ ہدایات بھی زبانی بتاتا ہے’ وہ عاشق تعویذ گلے میں لٹکا کر ہدایات پر عمل کرتا ہے تو نتیجہ سوفیصد مثبت آتا ہے’ بعد میں جب سارے دوست اس تعویذ کو کھول کر دیکھتے ہیں کہ آخر اس میں ایسا کونسا جادو تھا کہ مختصر عرصے میں ”محبوبہ قدموں پر” والی صورتحال ہو جاتی ہے اور کہانی ”شادی” پر منتج ہوتی ہے’ تو معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ میں یہ مصرعہ درج ہوتا ہے کہ
ارے آنا ذرا ادھر بھی مری جاں کبھی کبھی
شیخ صاحب بھی اگر تازہ واردان بساط ہوائے سیاست کو ان تعویذوں میں یہی مصرعہ درج کرتے ہوئے انہیں اس مخصوص گیٹ نمبر 4 سے رجوع کرنے کے مشورے دیں گے تو تعویذ کی برکات سے نئے سیاستدانوں کو فائدہ ہی فائدہ ملنے کی اُمیدیں روشن ہوسکیں گی مگر اتنے اچھے کاروبار کی ابتداء سے قبل ہی نیب نے یہ جو کھنڈت ڈال دی ہے یہ کہہ کر ہم پر کوئی دم اثر نہیں کرتا تو خدشہ ہے کہ شیخ صاحب اپنی ان صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس سے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نیب والوں کو شیخ صاحب سے کوئی کد ہے جو ان کیخلاف فوراً بیان دینے کو سرگرم ہوگئی ہے تاہم غور سے دیکھا جائے تو شیخ صاحب نے نیب پر دم کرنے کی تو بات ہی نہیں کی بلکہ شہباز شریف پر دم کرنے کا بیان دیا ہے’ گویا انہوں نے اپنے دم سے شہباز شریف کو سلیمانی ٹوپی پہنا کر نیب سے محفوظ رکھنے کی بات کی ہے۔ اسلئے نیب والوں کو اس پر ردعمل دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سارے قضئے میں البتہ رانا ثناء اللہ نے بھی اپنے ہونے کا احساس یہ کہہ کر دلایا ہے کہ شیخ رشید نجوم چھوڑ کر ریلوے کی وزارت پر توجہ دیں۔ اس کا شیخ صاحب کیا جواب دیتے ہیں تو یہ معلوم نہیں تاہم شیخ صاحب کی جگہ ہم ان کو یہ جواب دے سکتے ہیں کہ ریلوے پر توجہ ہی تو شیخ صاحب دے رہے ہیں اور کئی سٹیشنوں پر لاتعداد گاڑیوں کو قرنطینہ وارڈز میں تبدیل کرکے اور ریل گاڑیوں کو رکوا کر انہوں نے دوہرے فائدے سے قوم کو مستفید کیا ہے یعنی ایک تو اب ریلوے کے حادثے نہیں ہوتے جن سے اموات واقع ہو جاتی تھیں اور دوسرے یہ کہ کورونا کے مریضوں کیلئے قرنطینہ کا اہتمام کرکے ان کی جان بچانے کی کوششیں شروع کردی ہیں یعنی چلیں گی گاڑیاں نہ لوگ مریں گے’ گویا نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری اور یوں فائدہ ہی فائدہ۔ بقول محبوب خزاں
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات