2 148

سدھرنے والی مخلوق ہی نہیں ہم

معاف کیجئے گا ہم سدھرنے والے ہر گز نہیں’ شاید دعائیں آسمانوں سے پلٹا جارہی ہیں اس لئے بے اثر ہیں۔ اچھا ایسا ہے تو پھر ہمیں انفرادی واجتماعی معاملات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ہوگا۔ زندگی ہمارے سامنے سوال بن کر کھڑی ہے۔ لمحہ موجود اور مستقبل دونوں ہی تو زندگی ہیں’ کوئی بھی اپنی ”ہٹی” دکان بند کرنے کو تیار ہے نا زبان کی تلوار کو دہن کی نیام میں رکھنے پر آمادہ۔ ہمارا حال جو ہے سب کے سامنے ہے اور مستقبل۔ اس پر زیادہ مغز کھپانے کی ضرورت نہیں۔ فیصلے جب اجتماعی ضمیر کی آواز پر کئے جانے چاہئے تھے ہم گروہی مفادات پر کر رہے ہیں۔ نقصان وہ بھی بھگتیں گے جو باآواز بلند کہتے چلے آرہے ہیں خدا کیلئے صورتحال کی سنگینی کا احساس کیجئے’ دنیا بھر کے حالات ہمارے سامنے ہیں مگر ہمارا کوا سفید ہے، کوئی اسے کالا ثابت کرکے تو دکھائے۔ موجودہ حالات میں جو تکرار کیساتھ یہ کہہ رہے ہیں سیاست نہ کیجئے انہوں نے لشکری میدان میں اتارے ہوئے ہیں۔ حقائق مسخ کرنے اور دروغ گوئی کا ناسور بہت ”اوپر” تک پھیل چکا۔ عدل کے ایوانوں میں زیربحث اعداد و شمار سے اُٹھائے گئے پروپیگنڈے کے غبارے سے کل وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یہ کہہ کر ہوا نکال دی ”کوئی ہمیں وہ دستاویزات دکھا دے جس میں سندھ حکومت نے لکھا ہو کہ ہم 8ارب روپے کاراشن مستحقین میں تقسیم کرچکے’ ہم نے تو یہ لکھ کردیا تھا کہ حکومت ( سندھ حکومت نے 1.8ارب روپے کا امدادی سامان ڈپٹی کمشنر وں اور سماجی خدمت میں مصروف اداروں کے ذریعے تقسیم کیا۔ اس کا ریکارڈ موجود ہے”۔
پچھلے ایک ہفتہ کے دوران متاثرین کورونا اور مریضوں کی تعداد میں اچانک تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کساد بازاری کا شکار تو ساری دنیا ہوگی۔ غربت فقط ہمارا مسئلہ نہیں یہ دنیا کیساتھ ہے جنہیں ترقی کی معراج پر کھڑے ممالک قرار دیتے سمجھتے ہیں غربت ان کا مسئلہ بھی ہے۔ حالات کل نارمل ہوں یا ایک آدھ ماہ بعد ان ملکوں میں بس بیروزگاروں کے لشکر ریاستوں کیلئے مسئلہ پیدا کریں گے۔ چار اور سے بند کسی جزیرے پر ہم نہیں رہتے۔ بھری پڑی دنیا کے بیچوں بیچ آباد ہے پاکستان۔ دوسروں کی طرح ہمیں بھی مسائل کاسامنا ہے اور ہوگا۔ ہماری قیادت کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ ان مسائل و مشکلات سے نبرد آزما کیسے ہوگی اور ملک و قوم کو کم سے کم نقصان کیساتھ اگلے مرحلہ میں کیسے لے جا سکے گی۔ ساعت بھر کیلئے رُکئے’ سادہ سا سوال ہے ‘ کیا واقعی ہمارے پاس قیادت ہے’ یا لیڈری کے شوقینوں کا ہجوم؟ بہت ادب سے عرض کروںجھوٹ اس تواتر سے بولا جا رہا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔یہ وقت تھا کہ ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنے کی بجائے زمین زادوں کیلئے سوچا جاتا۔ افسوس کہ اس وقت بھی نفرت کی اس تجارت میں مصروف ہیں جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
آسان الفاظ میں اگر یہ عرض کیا جائے کہ عبادات کے حوالے سے ایوان صدر میں ہفتہ کو جو فیصلہ ہوا وہ خوش عقیدگی کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت اور دینی ذمہ داران کے متفقہ 20نکاتی اعلامیہ پر سو فیصد عمل ممکن ہی نہیں ایسے ایسے تماشے لگیں گے کہ چھٹی بلکہ تیسری کا دودھ بھی یاد آجائے گا۔ نا گوار ناگزرے تو دریافت کیاجائے اب ہم نے دینی عبادت کے حوالے سے سعودی عرب کی پیروی سے کیوں اجتناب کیا؟ ہم جو مدینہ ومکہ کی ہوائوں کو سلام دیتے اور ان پر قربان ہونے کے دعوے کرتے ہیں سعودی عرب کے مفتی اعظم کے اس فیصلے سے راہنمائی کیوں نا لے سکے جس میں انہوں نے کہا ” عبادات’ نماز پنجگانہ وجمعہ کے علاوہ نماز تراویح کیلئے مساجد میںخادمین کا عملہ ہی ہوگا عوام گھروں پر پڑھیں گے” مان لیجئے کہ سماج کے اجتماعی مفاد کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے لگی لپٹی کے بغیر کہہ دیا کہ ”میں تراویح کا اہتمام اپنے گھر پر کروں گا بجائے مسجد جاکر ہجوم کا حصہ بننے کے” اہتمام ہوسکتا تھا گھروں تک تلاوت پہنچانے کیلئے۔ ایوان صدر میں ہوئے فیصلے کے پیچھے وجوہات کیا رہیں سب سمجھتے ہیں۔ مساوات’ انصاف’ سماجی برابری اقتدار میں عوام کی شرکت اور دوسرے معاملات میں عوام کی بجائے صبر وشکر کی تلقین کرکے ہمیشہ حکومت کے یا یوں کہہ لیں ریاست کیساتھ کھڑے ہونے والے طبقے کی ناز برداری کی گئی، 20نکاتی متفقہ اعلامیہ سرابوں کے سوا کچھ نہیں، یہ اعتراض کہ بازاروں میں بھی تو لوگ جمع ہیں’ کسی حد تک درست ہے۔ مان لیا جانا چاہئے کہ بازاروں میں عام شہری نے قواعد و ضوابط کو مدنظر نہیں رکھا، پہلے کچھ باقاعدگی تھی لیکن جزوی لاک ڈائون کے مرحلہ میں سب تلپٹ ہوگیا۔ اس کے باوجود یہ عرض کرنے میں امر مانع نہیں کہ ہم خطرات سے کھیلنے جا رہے ہیں، دشمن اور اس کی سمت دونوں معلوم نہیں۔ کیا ریاست یہ انتظام کرلے گی کہ ملک بھر کی لاکھوں مساجد کے باہر یہ تشخیص ہوسکے کہ عبادتگاہ کے اندر داخل ہونے والا شخص بالکل صحت مند ہے؟ سچ یہ ہے کہ ایسا انتظام ممکن ہی نہیں، بہر طور اب دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔ دوا کے بغیر دعا کتنی کار گر ہوگی اس بارے کچھ عرض کرنا بے معنی ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اب لاک ڈائون اور جزوی لاک ڈائون مارکہ ڈراموں کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی اسلئے ڈرامے بازی بند کیجئے اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے یا پھر یہ اعلان کیجئے کہ اگر خدانخواستہ بیماری پھیلی تو اس کے ذمہ دار بیس نکاتی اعلامیہ پر دستخط کرنے والے ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی