5 68

عالمی نظام صحت کی کارکردگی!

کورونا وائرس کے بڑھتے پھیلاؤ نے دنیا کے طبی نظام پر سوالات اُٹھا دئیے ہیں۔ دنیا کے طاقتور ممالک میں وینٹی لیٹرز اور آئی سی یوز کی کمی نے دنیا کو پریشان کر دیا ہے، جن ممالک کے پاس دنیا کو ختم کر دینے والے مہلک ہتھیار موجود ہیں ان کا معمولی ویکسین اور دوائی کیلئے آج دنیا کے سامنے گڑگڑانا بھی ایک عبرتناک معاملہ بن چکا ہے۔ آئے روز ”وائرس” سے لوگوں کے متاثر ہونے کی تعداد نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اموات کی شرح میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ شاید ہی دنیائے انسانیت نے کبھی یہ سوچا ہو کہ نوعِ انسان کو عموماً اور ترقی پذیر ممالک کو خصوصاً ان حالات سے گزرنا پڑے گا۔ آج حال یہ ہے کہ ساری دنیا جیل خانے میں تبدیل ہوگئی ہے، بڑی بڑی عالمی طاقتیں بے بس ولاچار ہوگئی ہیں۔ دنیا میں بڑی بڑی معیشتوں کا دم بھرنے والے ممالک کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ بم وبارود کے خزانوں کے مالک اس وبائی بیماری کے سامنے عملاً سرنگوں ہوچکے ہیں۔ ابھی تک اس بیماری نے انہی ممالک کو زیادہ اپنی لپیٹ میں لیا جہاں کا طبی نظام باقی دنیا سے بہترین مانا جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کو اس طرح کی وبائی بیماری کے پھیلنے کی خبر نہ تھی بلکہ وقتاً فوقتاً دنیا کے سائنسدان وبائی امراض سے دنیا کو آگاہ کرتے رہتے تھے،
اس وقت دنیا میںGDP کا سب سے زیادہ حصہ ہتھیاروں پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے متعلق امریکی سائنسدانوں نے صدر ٹرمپ سے گزارش کی کہ آپ دہشتگردی کیخلاف جنگ پر سالانہ ایک سو ارب ڈالر خرچ کررہے ہیں لیکن ہمیں عالمی وبا کا توڑ تلاش کرنے کیلئے سالانہ صرف ایک ارب ڈالر دیا جا رہا ہے، ہمیں صرف ایک ارب ڈالر مزید دیدیں تاکہ امریکہ کو ہی نہیں، پوری دنیا کو اس نئی وبا سے محفوظ رکھ سکیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس درخواست کو مسترد کرتے رہے۔ اسی کا سبب ہے کہ آج امریکہ کے حالات قابلِ رحم بن چکے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے سبب امریکہ کی معیشت کو نہ صرف شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہے بلکہ اس کا سرمایہ دارانہ نظام تباہ ہوجائے گا، جس کا سب سے بڑا فائدہ چین کو ملنے والا ہے۔ یاد رہے اس سے قبل دنیا کی چار بڑی طاقتیں یعنی خلافتِ عثمانیہ، امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین اپنی معاشی کمزوریوں کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی ہیں کیونکہ ان طاقتوں کے جنگی اخراجات ان کی آمدنی سے بڑھ گئے تھے۔ اس لئے معاشیات انسانی زندگی کی بقا کیلئے ایک اہم اور فیصلہ کن عنصر کے طور پر شامل ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی ملک کا آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا عام لوگوں کیلئے کتنا بھیانک ہوتا ہے۔ دنیا میں امریکہ، اٹلی جیسے بہترین طبی نظام والے ممالک کا جب ہم آج حال دیکھتے ہیں تو برصغیر میں بسنے والے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جب ہم برصغیر میں ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو اس کا نمبر دنیا کے شعبہ صحت میں 142واں ہے۔ دوسری طرف2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان ہتھیار درآمد کرنے والے دنیا کے دوسرے بڑے ملک اور کشمیر کے مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کرنے والے پہلے ملک کا شرم ناک ریکارڈ بھی حاصل کرچکا ہے۔ ہندوستان کا شعبہ طب بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان سے بھی پیچھے ہے، تاہم پاکستان، نیپال اور افغانستان سے اچھا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کا شعبہ صحت غریب ترین افریقی ممالک سوڈان، نمیبیا اور یمن سے بھی گیا گزرا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پورے ہندوستان میں سرکاری ہسپتالوں میں713986بیڈز ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ 0.55بیڈ ایک ہزار کی آبادی کیلئے دستیاب ہیں۔ اب اس وبائی مرض کے سبب آج ہندوستان میں پانچ سے دس فیصد تک کورونا کے مریضوں کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ ایک امریکی تحقیقی ادارے نے کہا ہے کہ ہندوستان میں اس بیماری سے لڑنے کیلئے آئی سی یوز اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہے۔ ایک اور تحقیقی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اس وبائی بیماری سے لڑنے کیلئے ہندوستان کو دس لاکھ سے زائد وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑسکتی ہے اور آج ہندوستان کے پاس چالیس ہزار کے قریب ہی وینٹی لیٹرز ہیں یعنی اگر اس وبائی بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو 15مئی تک 22لاکھ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں، اس کیلئے ایک لاکھ دس ہزار سے دو لاکھ بیس ہزار وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ آپ خود اندازہ کریں کہ جہاں ایک ہزار مریضوں کیلئے 0.55فیصد بیڈ دستیاب ہوں اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کیلئے پچیس سے تیس ہزار وینٹی لیٹر ہوں وہاں کا حال کیا ہوگا۔ جب ہم وادیٔ کشمیر کی بات کرتے ہیں تو اس وقت ”شعبہ صحت” کی ”اپنی صحت” نازک حالات میں وینٹی لیٹر پر ہے۔ یہاں 80لاکھ کے قریب آبادی ہے اور محض 97وینٹی لیٹر ہیں جن کی مدد سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اگر کسی چیز کی کمی نہیں تو وہ بم، بارود اور فوج ہے۔ ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ منافقانہ سیاست کرنے اور سماج کو بانٹنے کے بجائے دنیا کو چاہئے کہ عوام کیلئے بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ بم اور بارود انسانیت کو نہیں بچا سکتے۔ کوئی اپنی فوجی طاقت کے نشے میں موت سے نہیں بچ سکتا۔ آج دنیا میں اس قہر کے سبب عوام بھوک کا شکار ہورہے ہیں، عوام فاقہ کشی پہ مجبور ہیں، سڑکوں اور جھونپڑیوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ بیماروں کو معمولی ادویہ کیلئے ترسنا اور تڑپنا پڑ رہا ہے، ایسے میں اربابِ حل وعقد کو چاہئے کہ انسانیت کو بچانے کیلئے اقدامات کریں۔

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''