2 147

نماز،جمعہ اور تراویح کی مشروط اجازت

رمضان المبارک سے قبل مساجد میں باجماعت نماز’ جمعہ اور تراویح کی ادائیگی کیلئے علماء کرام اور صدر مملکت کے درمیان مشروط اجازت پر اتفاق رائے خوش آئند ہے کیونکہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی رمضان المبارک میں عبادات کیلئے لوگ بڑی تعداد میں مساجد میں جمع ہوتے ہیں، پاکستان کے ارباب حل وعقد کو مذہبی طبقے کیساتھ بہت پہلے ہی اس اہم معاملے کو حل کر لینا چاہئے تھا کیونکہ پوری دنیا کے مذہبی حلقے اپنے عوام کو کورونا وائرس سے بچانے کیلئے مساجد کے حوالے سے دوٹوک لائحہ عمل پیش کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں مسلم امہ کیلئے جامعہ ازہر اور سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز کا فتویٰ مشعل راہ ہونا چاہئے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں نماز تراویح گھروں میں ادا کی جانی چاہئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی جانب سے مساجد کھولنے کا اعلان کیا گیا تو اس سے خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ اب شاید مذہبی حلقے مساجد میں کھل کر اجتماع کریں گے’ سو حکومت نے بروقت اقدام اُٹھاتے ہوئے علماء کرام کیساتھ مشاورت کیلئے اجلاس کے انعقاد کو یقینی بنایا’ اگر اس مشاورتی اجلاس میں تاخیر کی جاتی تو وہ نقصان کا باعث بن سکتی تھی کیونکہ رمضان شروع ہونے میں چند ہی روز باقی ہیں۔ اس مشاورتی اجلاس کا خوشنما پہلو یہ ہے کہ حکومت اور علماء کرام کے درمیان تمام امور خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں حالانکہ اتفاق رائے نہ ہونے کے قوی امکانات تھے کیونکہ علماء کرام مساجد کو بند کرنے کیلئے قطعی طور پر تیار نہ تھے۔مساجد میں نماز تراویح اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے حوالے سے 20نکاتی متفقہ اعلامیہ کے اکثر نکات وہی ہیں جو چند روز قبل علماء کرام نے اپنے اعلامیہ میں پیش کئے تھے۔ ان 20نکات کا لب لباب یہ ہے کہ مساجد میں تمام تر احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں’ مساجد سے قالین اور دریاں اٹھا دی جائیں، صفوں کے درمیان 6فٹ جبکہ نمازیوں کے درمیان 3 فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔ ہر نماز سے پہلے فرش کو کلورین سے دھویا جائے’ نمازی پہلے سے لگے ہوئے نشانات پر کھڑے ہوں گے’ نماز مسجد کے احاطے میں ہوگی’ 50سال سے بڑوں اور بچوں کو مساجد میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی’ نمازی گھر سے وضو کرکے آئیں گے’ نزلہ زکام کا مریض مسجد نہیں آسکے گا۔ اگر شرائط پر عمل نہ کیا گیا تو حکومت کارروائی کرے گی۔ مساجد میں باجماعت نماز و تراویح کی ادائیگی کے حوالے سے مشروط اجازت پر جو 20نکات سامنے آئے ہیں کیا ان نکات پر من و عن عمل درآمد ہوسکے گا اورکیا یہ مشروط اجازت کورونا کے پھیلائو کا باعث تو نہیں بنے گی؟ ان سوالوں پر غور کیاجانا چاہئے؟ ہم سمجھتے ہیں حکومت نے مذہبی طبقہ کو مشروط اجازت دے کر اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے۔ اب مذہبی طبقہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ چند وجوہ کی بنا پر ہمارے خدشات ہیں کہ ان 20نکات میں سے دو چار نکات پر بھی عمل نہیں ہو پائے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رمضان المبارک میں معمول سے زیادہ لوگ مساجد آتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری مساجد تنگ پڑ سکتی ہیں’ اگر صفوں میں 6فٹ فاصلے کاخیال رکھا گیا اور نمازیوں میں 3فٹ کے فاصلے پر عمل کیا گیا تو ہماری مساجد میں نمازیوں کیلئے جگہ مزید تنگ پڑ جائے گی’ اس پس منظر کے بعد غالب گمان یہ ہے کہ معاہدے کے برعکس لوگ مل مل کر کھڑے ہوں گے’ کیونکہ گلی محلے کی ہر مسجد پر پولیس تعینات کرنا اور ان مساجد میں آنے والے تمام نمازیوں کی مکمل نگرانی کیلئے ہمارے پاس وسائل دستیاب ہیں اور نہ ہی اس قدر پولیس نفری موجود ہے۔ سو حکومت کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ حتی الوسع وہ ان نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور علماء کرام پر اعتماد کرے کہ علماء کرام مساجد میں نماز’ جمعہ اور تراویح میں پابندی پر عمل کروائیں جبکہ علماء پہلے ہی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ نمازیوں کو مسجد آنے سے روکنا ان کے بس کی بات نہیں ہے یہ انتظامیہ کا کام ہے اور انہیں ہی کرنا چاہئے۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے علماء کرام اور ائمہ مساجد کی اس اتفاق رائے کے بعد ذمہ داری بڑھ گئی ہے اور انہیں دو امورکا خیال رکھنا ہوگا ایک تو حکومت کیساتھ طے پانے والے معاہدے کی پاسداری کرنی ہوگی’ دوسرے یہ کہ انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ مذہبی طبقہ کورونا کے پھیلنے کا سبب نہیں بن رہا ہے۔ دریں حالات تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے اپنے مکاتب کے احباب کو ان 20نکات پر عمل درآمد کیلئے مجبور کریں کیونکہ یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کے باوجود ائمہ مساجد لوگوں کو ساتھ ساتھ مل کر کھڑا ہونے کی تلقین کرتے ہیں’ اسی طرح ہمارا مذہبی طبقہ کورونا کو سنجیدہ لینے کیلئے بھی تیار نہیں ہے’ مشترکہ اعلامئے میں افطار پارٹیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے’ اس کیلئے ضروری ہے کہ جو رقم افطار پارٹی کیلئے مختص تھی اسے کسی ضرورت مند اور مستحق پر خرچ کیاجائے۔ علماء کرام اور ائمہ مساجد اگر چاہیں تو ان 20نکات پر مکمل عمل درآمد ہوسکتا ہے کیونکہ عوام علماء کرام اور ائمہ مساجد کی بات پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ علماء کرام کے پیش نظر 20ویں شق رہنی چاہئے جس میں کہا گیا ہے کہ ” اگر رمضان المبارک کے دوران حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہورہاہے اور متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کرے گی۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن