2 149

شوگر کے بعد بجلی مافیا،یک نہ شد دو شد

چینی سکینڈل کے بعد بجلی منافع خوری کی رپورٹ میں بھی حکومتی جماعت کے کلیدی اشخاص اور ایک وفاقی وزیر کے بھائی کے ملوث ہونے کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد اب حکومت کے پاس راست اقدام کے بغیر کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا۔ اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ حکومت اور نیب اس ضمن میں کیا کارروائی کرتے ہیں۔ خود اپنی ہی حکومت میں اپنوں کیخلاف تحقیقات کر کے جو مثال قائم کی گئی ہے اس کی تکمیل اس وقت ہی سمجھی جائے گی جب ملوث عناصر کا احتساب ہو اور ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس حاصل کر کے عوامی مفاد میں خرچ کیا جائے۔ قانونی نکات سزا کی راہ میں مزاحم ہوں اور بااثر مافیا مہنگے وکیل کر کے سزا سے بچ نکلنے کی راہ اختیار کریں اور حکومت بے بس نظر آئے تو اس کا امکان ماضی کی نظیروں کو سامنے رکھ کر نظر آتا ہے۔ جزاوسزا کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے لیکن مقدمہ قائم کرنے اور الزام ثابت کرنے میں حکومت کی قانونی ٹیم جان لڑا دے تو اس سے بھی ایک نئی مثال قائم ہوگی۔ ان معاملات سے قطع نظر وزیراعظم عمران خان کے پاس فوری طور پر اختیار کرنے کا مناسب راستہ یہ ہے کہ وہ ان افراد کی تحریک انصاف میں عہدے اور حیثیت اس وقت تک معطل کرنے کا فوری فیصلہ کرے جس کا بطور چیئرمین ان کو حق حاصل ہے جبکہ ایک الزام کے بعد دوسرے الزام کا سامنا کرنے والے خاندان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر کو وزارت سے الگ کر کے عملی طور پر اس کا ثبوت دیں کہ ان کی نظر میں تحفظ اقتدار ثانوی معاملہ ہے۔خود اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی اردگرد کے عناصر کیخلاف تحقیقات اور رپورٹ بنوانا جہاں لائق تحسین امر ہے وہاں اس عمل کی تکمیل اور احتساب وزیراعظم کیلئے بڑا چیلنج ہے جس کے بعد ہی اس الزام میںملوث دیگر سیاسی عناصر اور کاروباری شخصیات کیخلاف کارروائی میںحکومت حق بجانب ہوگی اور انتقام کا الزام لغو ہوگا۔ وطن عزیز میں شوگر، گندم اور بجلی مافیا اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ ایوان اقتدار کی راہداریوں میں ان کے اثرات اور احتساب کے عمل پر ان کا اثر انداز ہونا وہ عمل ہے اس کے باوجود اگر طاقتورکا احتساب ہونے لگے تو آئندہ مافیا کا راستہ روکنے کی راہ ہموار ہوگی۔بجلی کے معاہدوں پر نظر ثانی اور ان معاہدوں کے یکطرفہ ہونے اور اس کے اثرات کی بھی تحقیقات ہوں تو ذمہ دار عناصر کو کٹہرے میں لا کھڑا کرنا اور احتساب کے بلاامتیاز عمل کی راہ ہموار ہوگی۔
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
غیر ملکی کرنسی،سونے،چاندی ،چینی،گندم،آٹے ،چاول،دالوں،آلو،پیاز،خوردنی تیل اور لائیو سٹاک کی سمگلنگ اور سمگلروں کو چودہ سال تک قید کی سزا اگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کے مصداق نہ بنایا جائے تو اس قانون سے توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ ملک میں پہلے سے انسداد سمگلنگ کے کافی قوانین موجود ہیں مسئلہ ان پر عملدرآمد کا ہے۔ مافیا اتنا طاقتور ثابت ہوتا رہا ہے کہ وہ قانون کا جالا توڑ کر نکل جاتا ہے اور باثبوت گرفتاری کے باوجود عدالت سے سزا کی نوبت کم ہی آتی ہے اور اگر سزا ہو بھی جائے تو پس پردہ ہاتھوں کی بجائے کارندوں کو نشان عبرت بنانے کی مثالیں قائم ہوتی ہیں۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ انسداد سمگلنگ آرڈیننس میں ان تمام امور کو پوری طرح مدنظر رکھا گیا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس پر عملدرآمد کے اختیارات کافی وسیع رکھے گئے ہیں،وارنٹ کے بغیر گرفتاری بھی بشرط حقیقی معنوں میں استعمال ایک ایسی قانونی سہولت ہے جسے بروئے کار لانے سے بروقت گرفتاری اور سمگلروںکو روپوش ہونے سے قبل دبوچا جا سکے گا۔ اس آرڈیننس کے تحت سمگلرز کا تمام سامان ضبط اور چودہ سال قید تک کی سزا پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کی مثالیں سامنے آنے لگیں تو سمگلرز اور ان کے کارندے اگر باز نہ بھی آئیں تو خوفزدہ ضرورہوں گے۔ قانون کے نفاذ اور پھنس جانے کا خوف سمگلنگ کی روک تھام میں مؤثر مانع ثابت ہوگا،آرڈیننس کے اجرا کے بعد جتنا جلد ہوسکے کسٹمز اور ایف بی آر فعالیت کا مظاہرہ کرے اور مافیا کیخلاف عملی اقدامات بلا تاخیر شروع کر کے سمگلنگ کی مؤثر روک تھام ممکن بنائے۔ حکومت کا بھی امتحان ہوگا کہ وہ حکام پر دبائو ڈالنے اور دھمکانے والوں کیخلاف ان کو تحفظ فراہم کرے اور کسی مصلحت کو بروئے کار لائے بغیر بلاتخصیص کارروائی کا ماحول فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کرے۔
ادائیگی زکوٰة’حددرجہ احتیاط
صوبائی دارالحکومت پشاور میں رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر فلاحی کاموں کے نام پر غیر رجسٹرڈ این جی اوز کے سرگرم ہونے کا انتظامیہ کو تو فوری نوٹس لینا چاہئے البتہ اس سے بھی زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ زکوٰة دینے والے اپنے زکوٰة کو ایسے ہاتھوں میں دینے سے گریز کریں جو قابل اعتماد نہ ہوں۔زکوٰة کی ادائیگی حقیقی مستحق کو ڈھونڈ کر اسے زکوٰة کی رقم یامال کا مالک بنانا ہرصاحب نصاب کا دینی واخلاقی فریضہ ہے۔ اگر ایسا مشکل ہو تو پھر صوبے میں خدمت کے ایسے نیک نام ادارے موجود ہیں جن کی انتظامیہ اور عملہ قابل اعتماد ہی نہیں بلکہ ان کی دیانتداری مسلمہ ہے۔ اس وقت بھی اس کے رضا کار خلوص وجذبہ ہمدردی کیساتھ لوگوں کی حتی الوسع دستگیری کرنے میں مصروف ہیں۔ ان پر اعتماد کرنے سے معاشرے کے اس محروم طبقے تک باآسانی رسائی ممکن ہے جن کو زکوٰة وصدقات کی زیادہ ضرورت ہے۔ زکوٰة سے منظم طریقے سے لوگوں کی مدد بھی یقینا مستحسن امر ہے جو باقاعدہ نظم، تجربے اور حقیقی مستحق افراد کے علم کے بغیر مشکل ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات