2 156

ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں

کہانی بہت پرانی ہے، سکول کے دنوںمیں عقل سکھانے کیلئے پڑھائی جاتی رہی ہے مگر عقل؟ معاف کیجئے گا حضرت انسان ایسی کہانیوں سے عقل سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا پھر بھی کہانی کا حوالہ دینے میں کیا حرج ہے۔ کم ازکم اس کہانی کے آئینے میں آج کے اس جدید دور میں ہم اپنا عکس تو دیکھ سکیں۔ کہانی اس بوڑھے شخص کی ہے جسے آپ سرد وگرم چشیدہ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر زندگی بھر کے نچوڑ کا تذکرہ نئی نسل کیساتھ شیئر کرنا ہے تو اس کے پیچھے ایک پوری تہذیب کے تجربات ہوتے ہیں، سو بوڑھے نے بھی اپنے چار بیٹوں کوجو ہر لمحے ایک دوسرے کیساتھ لڑنے بھڑنے اور بات بات پر اُلجھنے پر تیار ہوتے تھے، اتحاد واتفاق کی زنجیر میں باندھنے کیلئے لکڑیوں کا گٹھا توڑنے کا کہا تو ناکامی کے بعد لکڑیوں کو علیحدہ کر کے اور ایک ایک کر کے توڑنے کا حکم دیا، تو نتیجہ ”مثبت” آنا تھا سو آہی گیا، اس کے بعد باپ نے انہیں نصیحت کی کہ اگر لکڑیوں کے گھٹے کی طرح ایک دوسرے سے جڑے رہوگے تو تمہارا بال بھی کوئی بیکا نہیں کر سکے گا اور اگر ایک دوسرے سے الگ رہوگے تو پھر نقصان میں رہو گے۔ کہانی یہیں تک ہی تھی اس کے بعد بیانیہ خاموش ہے کہ بوڑھے کے دنیا سے منہ پھیرنے کے بعد اس کے چاروں بیٹوں نے اس کی نصیحت پلے سے باندھ لی تھی یا نہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ آج تک ایک دوسرے سے اُلجھنے میں مصروف ہیں، ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ان دونوں کہانی کے چار بھائیوں کی طرح ہمارے چاروں صوبے بوڑھے کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنے کی بجائے کہانی کا دوسرا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ کورونا کے معاملے پر معاشرہ ایک دوسرے سے دست وگریباں دکھائی دے رہا ہے درست ہے کہ بقول شاعر
کچھ تو مجبوریاںرہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
مگر ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں کے مصداق حکومت اور حزب اختلاف جس بیان بازی میں اُلجھے ہوئے ہیں اس کے نتائج آخر کیا نکلنے ہیں اور انہی کے دیکھا دیکھی معاشرے کے مختلف طبقات بھی مفادات کے اسیر دکھائی دے رہے ہیں اگرچہ جواز کے طور پر ہر ایک کے پاس دلائل کے انبار دکھائی دیتے ہیں، خاص طور پر اقتصادیات انتہائی اہمیت اختیار کرتی جارہی ہیں، غربت کی لکیر کے نیچے انتہائی مشکل حالات میں زندگی کے شب وروز گزارنے والوں کی جھگیوں میں اُگنے والی بھوک سے لیکر عام سفید پوش طبقے اور اوپر تک جاتے ہوئے درمیانے طبقے تک کی آمدنی پر پڑنے والے منفی اثرات دن بہ دن واضح سے واضح تر ہوتے جارہے ہیں، سرکار نے جو محروم طبقات کی دادرسی کیلئے پروگرام شروع کر رکھا ہے اس پر جہاں بعض جگہوں میں اظہار اطمینان کیا جارہا ہے وہاں منفی تبصرے بھی کئے جارہے ہیں اور محروموں کی محرومیت کی نشاندہی ہورہی ہے، بعض نجی تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جن کی وجہ سے صورتحال پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں مگر متوسط اور سفیدپوش طبقات کی حالت دیدنی ہے۔ نہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں نہ اپنے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی ان میںتاب ہے۔ ایک وہ بھی وقت ہوتا ہے جب تاجرحضرات حکومت پر اپنے مطالبات کے حوالے سے دبائو ڈالنے کیلئے پورے ملک میں مارکیٹیں بند کر کے لاک ڈائون کرتے ہیں جبکہ اب کورونا کے خدشات کی وجہ سے حکومت لاک ڈائون کرنے کا کہتی ہے تو یہ لوگ دکانیں اور مارکیٹیں کھولنے پر بہ ضد ہیں، ظاہر ہے ایک دو دن کاروبار بند کر کے مطالبات منوانا الگ بات ہے تو مستقل کئی ہفتوں تک شٹ ڈائون سے کئی طبقات کا رزق بندھا ہوا ہے اور مزدوری نہ ہونے سے روزی روٹی کے مسائل گمبھیر صورت اختیار کر رہے ہیں، اس لئے اب صورتحال خطرے کے سرخ نشان کو عبور کرتے ہوئے گزشتہ روز پشاور میں تصادم تو کراچی میں تاجروں کی پکڑ دھکڑ تک جا پہنچی ہے۔ ادھر رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اور مفتی تقی عثمانی گھر پر نماز ادا کریں گے، اس سے پہلے مولانا فضل الرحمن نے بھی گھر پر ہی نماز تراویح کے اہتمام کی بات کی تھی تو پھر مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی سے یہ سوال نہیں بنتا کہ جناب جب آپ خود گھر پر ہی نماز کا اہتمام کریں گے تو عام لوگوں کو مساجد میں بلوا کر خواہ مخواہ مسائل سے دوچار کرنے پر کیوں مجبور کر رہے ہیں،کہیںیہ بھی ہر سال رمضان المبارک اور عیدین کے مواقع پر رویت ہلال کے معاملے پر ہٹ دھرمی اختیار کر نے والے معاملے کی طرح تو نہیں جہاں کئی بار آپ نے کبھی ایک فرض روزہ ساقط کروایا، تو کبھی عید الفطر کے دن قوم سے اضافی روزہ رکھوا کر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پوری کروائی؟ اس لئے بہتر ہے کہ کم ازکم مساجدمیں جم غفیر سے احتراز کی کوئی صورت نکالی جائے تاکہ اس موذی مرض سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھ نہ سکے، ویسے بھی اب تو یہ خبر بھی سامنے آگئی ہے کہ کورونا وائرس مختلف بیماریوں میں بدلتا رہتا ہے یعنی یہ ایک بہروپیا مرض ہے جس نے کئی روپ ابھی بدلنے ہیں (اللہ بچائے) ان حالات میں جب ہم سیاسی رہنمائوں کے بیانات پر نظر ڈالتے ہیں تو حیرت اور افسوس کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ ان میںسے بعض کے کرتوت ویسے بھی قوم کیساتھ بلات کار کے زمرے میں آتے ہیں اور اب تو صدر مملکت نے بھی کہہ دیا ہے کہ مافیاز نے قوم سے ریپ نہیں گینگ ریپ کیا، اسی لئے اگر لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ بھوکے مرنے کے خدشات سے دوچار ہیں تو کیا غلط ہے بقول اُستاد دامن
ایتھے کیویں گزاریئے زندگی نوں
ایہو سو چدے سوچدے گزرگئی اے

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی