2 155

مشرقیات

ایک مرتبہ سلطان ملک شاہ سلجوقی نے ارادہ کیا کہ جس قدر فوج فالتو ہے ، اس کو الگ کر دیا جائے کہ خزانے پر بوجھ نہ رہے ۔ نظام الملک طوسی نے جو ملک شاہ کے باپ کے زمانے میں سلطنت کا وزیراعظم چلا آتا تھا۔ عرض کیا : یہ لوگ سپاہی ہیں ۔ کاتب ، تاجر اور خیاط نہیں ہیں کہ معاش کو قائم رکھ سکیں گے ۔ بجزسپہ گری کے ان کا دوسرا پیشہ نہیں ہے۔ آخر یہ لوگ کہاں جائیں گے۔ پس ضروری ہے کہ کسی دوسری سلطنت میں رجوع کریں گے یا کسی کو سردار بنا کر ملک میں غارت گری کریں گے ۔ لہٰذا ان کا موقوف کرنا عقل وحکمت کے خلاف ہے۔ لیکن ملک شاہ نے نظام الملک کی نصیحت پر جو آزادانہ اور مخلصانہ طور پر کی گئی تھی ، عمل نہ کیا اور فوجی رجسٹر سے سات ہزار نوجوانوں کا نام کاٹ دیا۔ یہ سب لوگ سلطان ملک شاہ کے بھائی تکش سے جاملے۔ باغیوں نے بوشیخ ، مرو، ترمد پر قبضہ کر لیااور دارالخلافہ نیشاپور کے فتح کی تیاریاں کرنے لگے۔ نظام ملک اورملک شاہ نے گو دارالخلافہ کو بچا لیا اور اخیر میں صلح بھی ہوگئی ، مگرنتیجہ وہی ہوا جس کا اندیشہ نظام الملک نے ظاہر کیا تھا۔ نظام الملک نہایت دور اندیش اور ذہین انسان تھے اور انہوںنے سلطان کے فوج میں کمی کے فیصلے سے ہونیوالے نقصان کا اس قدر درست انداز ہ لگایا تھا۔ دوسرے یہ کہ ملک کے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتہ درست نہیں سپاہی کا کام محاذ پر لڑنا ہوتا ہے اور اس نے تمام عمر یہی سیکھا ہوتا ہے اگر سپاہی کو فوج سے فارغ کیا جائے تو یہ کسی طور درست نہیں ہوتا اور اس کے بد اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
٭حضرت عطاء خراسانی فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص 40سال تک قاضی (جج) کے عہدے پر فائز رہا۔ جب اس کی وفات قریب آگئی تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے مرض میں مر جائوں گا۔ سو اگر میرا انتقال ہوگیا تو تم مجھے چار پانچ دن اپنے (گھر میں) ہی رکھ دینا۔ اگر کسی قسم کا تغیر یا مناسب چیز مجھ سے ظاہر ہوتی نظر آئے تو کوئی مجھے آواز دے۔ چنانچہ اس مرض میں اس کا انتقال ہوگیا۔ ایک تابوت میں اس کو گھر کے ایک کونے میں رکھ دیاگیا۔ تیسرے دن اس کی بدبو گھروالوں کو پریشان کرنے لگی تو کسی نے آواز دی کہ اے فلاں! یہ بدبو کس چیزکی ہے؟ باذن خداوندی اس کی زبان گویا ہوگئی اور اس کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوئے کہ:” میں 40سال تک تم لوگوں کا قاضی رہا۔ اس طویل عرصہ میں مجھ سے کوئی نا انصافی والی بات سرزد نہیں ہوئی۔ البتہ دو شخصوں کے بارے میں مجھ سے کچھ زیادتی ہوگئی۔ وہ اس طرح کہ ان دو میں سے ایک کی طرف دل مائل تھا تو اس کی بات میں نے دیر تک سنی۔ جبکہ دوسرے کی بات کو وہ اہمیت نہ دی اور نہ اتنی زیادہ دیر تک اس کی بات سنی۔ یہ بدبو اس زیادتی کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرے اس زیادتی والے کان کو بند کردیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ مرگیا۔ عدل ایسی چیز ہے جس میں ذرا سی لغزش پیدا ہوتو سارا نظام بگڑ جاتا ہے ۔معاشروں میں بگاڑ نظام عدل وانصاف میں کوتاہی کے باعث ہی پیدا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟