2 160

اونٹ پہاڑ کے نیچے آرہا ہے؟

اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے کورونا مہم کے دوران بھارت میں مسلمانوں کیساتھ حقارت اور نفرت آمیز سلوک کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کا تحفظ کیا جائے اور اسلامو فوبیا کی مہم کو روکا جائے۔ بھارتی حکومت کے پاس اس مہم کو روکنے کا واحد آپشن ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ او آئی سی مسلمانوں کی کسی مسئلے پر ہی سہی جاگ تو گئی۔ اس کیساتھ عرب ملکوں میں بھی نفرت نگیز مہم چلانے والے نسل پرست ہندوؤں کیخلاف کارروائی کا سلسلہ بہت آہستہ روی سے چل پڑا ہے۔ بھارت عرب دنیا سے اُٹھنے والی ان آوازوں کو نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ان عرب ملکوں کیساتھ بھارت کے گہرے مالی مفادات وابستہ ہیں۔ کشمیر اور فلسطین جیسے سلگتے ہوئے مسائل پر گونگی بہری او آئی سی کی یہ توتلی آوازیں بھارت کا دماغ درست کر سکتی ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کے ٹویٹ اور دفترخارجہ کے بیانات یا کچھ عالمی تنظیموں کے بیانات اور کچھ مغربی اخبارات کی رپورٹس اس جنونیت کو کم تو نہ کر سکے مگر معاشی خسارے کا خوف بھارت کو کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ طاقت اور طاقتور کی عقل کسی نہ کسی مقام پر آکر ماؤف ہوجاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کورونا نے بھارت کو اس مقام پر لاکھڑا کر دیا ہے۔ بنیا مزاج کو نہ اصولوں کی دہائی رام کر سکی نہ انصاف کی آوازیں مشورے موم کر سکے۔ بنیا مزاج کو کاروباری نقصان اور خسارے کے خوف نے اب ایک دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے، جو اسلاموفوبیا بھارت کے اندر زور وشور سے پھیلایا گیا تھا اب بیرونی دنیا میں بھارت سے اپنی قیمت وصول کرنے لگا ہے۔ اس عمل کا آغاز اس وقت ہوا جب خلیجی ملکوں میں روزگار اور کاروبار کیلئے مقیم ہندوؤں نے ہندوتوا کے سخت گیر نظریات کے زیراثر بھارتی مسلمانوں کیخلاف سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی شروع کر دیا۔ متحدہ عرب امارات اس مہم کا مرکز تھا جہاں بھارتی لابی کا اثر رسوخ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ خلیجی ملکوں میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق اسی لاکھ بھارتی موجود ہیں اور ان میں صرف تیس لاکھ متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ یہ لوگ کاروبار اور ملازمتوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ او آئی سی نے ایک قرارداد میںبھارتی مسلمانوں کیساتھ ناروا سلوک کی مذمت کی تو بھارت کی گز بھر زبان جو اندرونی معاملات میں مداخلت کے نام پر اکثر شعلے اُگلنے لگتی ہے کچھ گنگ سی ہوگئی۔2015 میں اماراتی حکومت نے ایک اینٹی ڈسکریمنیشن لاء کے نام سے ایک قانون کی منظوری دی تھی جس کا مقصد نفرت انگیز مہمات کی روک تھام تھا۔ کورونا مہم میں مسلمانوں کیخلاف امارات میں مقیم ہندوؤں کیخلاف یہ قانون حرکت میں آنا شروع ہوا۔ گزشتہ چھ مہینوں میں بھارت کے چھ شہری اس قانون کی زد میں آچکے ہیں۔ ان افراد کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ دوبئی میں مقیم بھارتی فلم ساز سوہان رائے کو مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز مہم چلانے پر سرعام معذرت کرنا پڑی۔ اسی طرح دوبئی میں مقیم ایونٹ منیجر سورابھ اوپدائے جس نے مسلمانوں کا سماجی اور معاشی مقاطعہ کرنے کی مہم چلا رکھی تھی اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ویب سائٹس سے محروم ہو گیا۔ اس مہم میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند الکسیمی کو پہلے اپنے ٹویٹس میں اور بعدازاں بھارت کے این ڈی ٹی وی کی اینکر نندی رازدان کیساتھ ایک انٹرویو میں دوٹوک انداز میں ایسے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا پڑا گوکہ امارات کا شاہی خاندان بھارت کا دوست سہی مگر آپ کی کوئی بدتمیزی قبول نہیں کی جائے گی۔ ایسے لوگ نظر میں ہیں اور انہیں ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔ شہزادی کا یہ انداز بھارت کے حکمرانوں کیلئے بجلی گرنے سے کم نہ تھا۔ یہی نہیں امارات، کویت قطر بحرین میں ایسی آوازیں بلند ہونے لگیں جن میں کہا گیا تھا کہ بھارتی شہری ہمارے ہی سرمائے سے بھارت میں ہمارے بھائیوں کو قتل کررہے ہیں اس لئے انہیں خلیج سے نکال باہر کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے ایک بااثر عرب محمد الشریکہ کا ایک ٹویٹ خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس کے مندرجات یوں ہیں ”ہندو نسل پرستوں کی حکومتی حمایت بھارت کے مستقبل کیلئے خطرہ ہے۔ کیا وہ بیس فیصد آبادی کو نقصان پہنچا کر خانہ جنگی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں؟” عرب ملکوں میں ہلکی سی جھرجھری ہونے کے بعد نریندرمودی کو یہ حقیقت نظر آنے لگی کہ کورنا کا کسی نسل اور مذہب سے تعلق نہیں۔ اس سے پہلے وہ بھی کورونا کا مذہب اسلام ہونے پر کامل یقین رکھتے تھے جس پر فقط یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہائے کم ظرف کو کس وقت خدا یاد آیا۔ بعد میں متحدہ عرب امارات میں بھارت کے سفیر کو ایک ویڈیو پیغام میں امارات میں مقیم بھارتی سخت گیر ہندوؤں کو پیغام دینا پڑا کہ انہیں اس ملک کے قوانین کی پابندی کرنی چاہئے اور نفرت انگیز مہم سے گریز کرنا چاہئے۔ امارات میں بھارت کے سابق سفیر نودیپ سوری نے تو یہ بھی کہا کہ کورونا کے دوران اُبھرنے والی نفرت انگیز مہم بھارت کیلئے نیا سفارتی چیلنج ہے اور پاکستان اس صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا جس کے بعد بھارت کی کچھ ریاستوں میں فیک نیوز اور ہجوم کے تشدد کیخلاف کچھ وزرائے اعلیٰ نے پھرتیاں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ کئی جگہوں پر افواہیں پھیلانے پر کچھ لوگوں کیخلاف کارروائیاں ہونے لگی ہیں۔ یوں اونٹ اب پہاڑ کے نیچے آتا نظر آرہا ہے۔ انسانیت، اہنسا، انصاف سمیت جو دُہائیاں بھارت پر اثرانداز نہ ہوسکیں مالی نقصان کے خوف نے بھارت کو یہ سارے سبق پڑھانا شروع کر دئیے ہیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟