1 111

مفت تیل کی سہولت اور ہم

عالمی مارکیٹ میں تیل تاریخ کی کم ترین قیمتوں پر فروخت ہو رہا ہے، ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ بظاہر سب سے قیمتی سمجھی جانے والی پروڈکٹ مفت دینے پر منتیں ترلے کئے جائیں گے تاکہ تیل سے بھری گاڑیاں خالی ہو سکیں۔ تاہم اس تیل کی قیمت میں غیرمعمولی کمی کا اطلاق پاکستان کیلئے خریدے جانے والے تیل پر نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا ملک اپنی ضرورت کا تیل خلیجی ممالک سے خریدتا ہے جس کی قیمت اوپیک باسکیٹ کے مطابق ادا کی جاتی ہے، اگرچہ خلیجی ممالک نے بھی تیل کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کیا ہے لیکن اوپیک باسکیٹ میں اب بھی تیل18.16ڈالر فی بیرل فروخت ہورہا ہے جبکہ امریکی برانڈ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹWTI میں تیل کی قیمتیں ایک ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے چلی گئی ہیں۔
تیل کی قیمتوں پر یہ زوال اسلئے آیا کہ خام مال کے سوداگر بازار کے رحم وکرم پر رہتے ہیں اور اگر منڈی میں طلب کم ہوجائے تو فروخت بڑھانے اور اس میں اپنا حصہ برقرار رکھنے کیلئے دام میں کمی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تیل کی طلب اور رسد میں بہت عرصے سے عدم استحکام پایا جاتا رہا ہے، یعنی تیل کی پیداوار کھپت سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ اس کشیدگی میں اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اشتعال انگیر بیانات اور چینی مصنوعات پر اضافی محصولات کی دھمکی اور چین کے جوابی اقدامات سے سرمایہ کاروں میں بے چینی پھیلتی ہے لیکن چند ہی دن بعد دونوں جانب سے شاخِ زیتون کی نمائش معاملے کو ٹھنڈا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کر دیتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی سخت مزاجی سے چینی کارخانوں کی پیداوار متاثر ہوئی جس سے تیل کی قیمتوں پر منفی اثر پڑا۔ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے دنیا میں تیل کی اوسط کھپت نو کروڑ 70لاکھ بیرل جبکہ پیداوار دس کروڑ بیرل کے قریب تھی۔ اس فرق کی وجہ سے قیمتوں پر دباؤ تو تھا لیکن اس سال کے آغاز پر تیل کا دام 55سے60ڈالر فی بیرل کے درمیان کسی حد تک مستحکم تھا۔ جنوری کے دوسرے ہفتے کے دوران چین میں کورونا وائرس وبا کی شکل اختیار کرگیا اور اس کی صنعتی پیداوار میں خلل آنا شروع ہوا۔ فروری کے وسط سے یورپ میں بھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آنا شروع ہوگئے اور مارچ تک اٹلی، فرانس، جرمنی اور سارا یورپ اس مرض کی لپیٹ میں آگیا۔ مارچ کے وسط میں اس آفت نے نیویارک کا رخ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ اور کینیڈا کے سارے بڑے شہروں میں قیامت برپا ہوگئی۔ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں دنیا بھر کی صنعتی وتجارتی سرگرمیاں منجمد ہوگئیں جس کے نتیجے میں تیل کی کھپت ساڑھے چھ کروڑ بیرل رہ گئی۔ اسی دوران چین کی منڈی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے روس اور سعودی عرب کے درمیان قیمتوں کی جنگ شروع ہوئی۔ امریکہ میں چھوٹی بڑی نوہزار تیل کمپنیاں ہیں جن میں سے بعض دوتین افراد پر مشتمل ہیں جن کے اخراجات کم ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت بھی بہت زیادہ نہیں۔ ان چھوٹی کمپنیوں کی مجموعی پیداوار دس لاکھ بیرل روزانہ کے قریب ہے چنانچہ بڑی کمپنیوں کی جانب سے کٹوتی کے باوجود امریکہ میں تیل کی پیداوار کھپت سے زیادہ رہی۔ امریکی تیل کی قیمتوں کا تعین ماہانہ سودوں کی بنیاد پر ہوتا ہے جو ہر ماہ کی 19 تاریخ تک کئے جاتے ہیں یعنی خریداری کے جو سودے 19مارچ یا اس کے بعد ہوئے، وہ تیل 19اپریل تک اُٹھانا ضروری تھا۔ آڑھتیوں نے تیل تو وعدے کے مطابق اُٹھا لیا لیکن انہیں کوئی گاہک نہ مل سکا چنانچہ یہ حجم ٹینکروں میں ذخیرہ کر دیا گیا۔ زیادہ لاگت سے حاصل ہونے والا تیل سستا بیچ کر نقصان اُٹھانے کیساتھ نہ بکنے والے ”فالتو” تیل کو ذخیرہ کرنا ایک عذاب بن گیا۔ زمین پر موجود ذخائر، ٹینکرز اور سمندروں میں محوِخرام تیل بردار جہاز بھی لبالب بھرگئے جن کا کوئی خریدار نہیں۔ دوسری طرف کنوؤں سے پیداوار برابر آتی رہی، اور جب ذخیرے کی گنجائش ختم ہوگئی تو فروخت نہ ہونیوالا تیل رکھنے کیلئے کرائے پر ٹینکر حاصل کئے گئے اور نوبت یہاں تک آگئی کہ ٹینکروں کا کرایہ تیل کی قیمت سے زیادہ ہوگیا، چنانچہ تیل اونے پونے بکنے لگا اور جب کوئی مفت بھی لینے کو تیار نہ ہوا تو آڑھتیوں نے تیل کو ٹھکانے لگانے کے پیسے دینے شروع کر دئیے یعنی خریدار سے قیمت وصول کرنے کے بجائے جان چھڑانے کیلئے اسے تیل اُٹھانے کا معاوضہ دیا جانے لگا اور اسی بنا پر قیمت منفی ہوگئی۔ یہ بندوبست مارچ میں کئے جانے والے سودے کیلئے تھا۔ 20اپریل سے مئی Delivery کے سودے 22ڈالر فی بیرل ہو رہے ہیں۔ تاہم خیال ہے کہ چند دنوں میں مئی کے وعدے بھی سستے ہو جائیں گے کیونکہ فی الحال دور دور تک بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں مگر بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہWTIکے زوال سے تیل کی عالمی قیمتوں پر براہِ راست کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہWTIکا 70فیصد حجم امریکہ میں استعمال ہوتا ہے۔WTI کے اس غیرمعمولی زوال اور بے قدری کا نفسیاتی اثر تیل کی عالمی منڈی پر بھی محسوس ہو رہا ہے۔ اوپیک باسکیٹ کی قیمتیں فی الحال مستحکم نظر آرہی ہیں لیکن اس کا زوال بھی خارج ازامکان نہیں۔ ان حالات میں سعودی عرب پاکستان کو چار ڈالر فی بیرل کی رعایت دے رہا ہے اور گزشتہ ہفتے جو تین ٹینکر سعودی تیل لیکر کراچی آئے ہیں، ان پر لدے تیل کی قیمت 16ڈالر فی بیرل ادا کی گئی ہے۔ کم قیمت پر دستیاب تیل سے پاکستان زبردست فائدہ اُٹھا سکتا ہے لیکن اس کیلئے فوری اور دوررس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات اور LNG کی قیمتوں میں کمی کرکے بجلی اور گیس سستی کی جاسکتی ہے جس سے عوام کو راحت نصیب ہونے کیساتھ صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوگی جو برآمدات بڑھانے کیلئے بے حد ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں