2 159

گراں فروشی کا نوٹس لینے کی ضرورت

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی گراں فروشی میں اضافہ ہو جاتا ہے’ اشیائے خورو نوش عوام کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہیں ‘ گراں فروشی کا یہ سلسلہ پورا رمضان چلتا ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیز گراں فروشی کے خلاف بے بس نظر آتی ہیں’ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ ہونے کے باعث عوام اشیائے خور و نوش کو مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں ‘ کہنے کی حد تک حکومت کی جانب سے ہر سال رمضان المبارک کے نام پر اربوں روپے کے پیکیج کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن اس پیکیج کے ثمرات سے عوام ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ اس سال بھی وفاقی حکومت کی جانب سے 2.5ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ عوام کی غالب اکثریت گراں فروشوں سے اشیاء خریدنے پر مجبور ہیں۔ امسال لاک ڈائون کی وجہ سے اگرچہ بڑے بازار بند ہیں لیکن پھل ‘ سبزیاں اور کریانہ سٹور کھلے ہیں’ جہاں رمضان کی آمد سے قبل پھل اور سبزیاں مناسب داموں فروخت ہو رہی تھیں لیکن رمضان المبارک شروع ہوتے ہی پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے’ حالانکہ پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں نمایاں کمی ہوئی ہے’ پھلوں اور سبزیوں کو منڈیوں تک لانے کیلئے ٹرانسپورٹ کے اخراجات آدھے ہوگئے ہیں جس کی بنا پر پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے تھی جبکہ لاک ڈائون کی وجہ سے پھلوں اور سبزیوں کی برآمد بھی متاثر ہوئی ہے اور لے دے کر پاکستان کی مارکیٹ میں پھل اور سبزیاں فروخت کرنے کا آپشن باقی رہ گیا ہے یوں حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان میں عام دنوں کی نسبت موجودہ حالات میں پھل اور سبزیاں سستی فروخت کی جائیں، کیوں کہ پھل اور سبزیاں مقامی پیداوار ہے لیکن صد افسوس ایسا نہیں ہوا’ بلکہ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کیلئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں جب کہ اس کے برعکس پوری دنیا میں حکومتیں اور ادارے مذہبی ایام اور تہواروں کے مواقع پر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں کمی کر دیتی ہیں تاکہ غریب عوام بھی مذہبی ایام کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں لیکن اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے والوںکا عمل افسوسناک ہے۔ ہمارے ہاں رمضان المبار ک میں مہنگائی کرنے میں ذخیرہ اندوز’ ٹھیلے والے’ دکاندار اور ان پر چیک رکھنے والے ادارے اس نہایت اہم معاملے کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں’ رمضان المبارک میں گراں فروشی کی بنیادی وجہ آڑھتیوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا بھی ہے۔ بیوپاری رمضان المبارک سے قبل اشیاء کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور چونکہ رمضان المبارک میں عام دنوں کی نسبت گھروں میں سحر و افطار کیلئے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے ‘ اسی طرح غرباء کو سحری و افطاری کروانے کا رجحان پایا جاتا ہے جس کی بنا پر اشیاء کی کھپت میں کسی قدر اضافہ ہو جاتا ہے جس کا آڑھتی اور بیوپاری فائدہ اُٹھاتے ہیں’ کیسی عجیب بات ہے کہ رمضان سے قبل بھی اشیاء کی قیمتیں معمول پر رہتی ہیں اور رمضان رخصت ہونے کے ساتھ ہی دوبارہ قیمتیں معمول پر آ جاتی ہیں ‘ یوں دیکھا جائے تو تاجروں نے رمضان المبارک کو کمائی کا بہترین ذریعہ بنا لیا ہے۔ دریں حالات حکومتی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو بے رحم بیوپاریوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں ‘ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے آٹا اور چینی بحران کے خلاف مؤثر کارروائی کیلئے سخت پیغام دیا تھا کہ اگر تاجروں نے بحران پیدا کرنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف ٹھوس کارروائی عمل میں لائی جائے گی’ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کو رمضان المبارک کی مصنوعی مہنگائی کا بھی نوٹس لینا چاہیے’ کیوں کہ ذخیرہ اندوزی یا مہنگائی پر قابو پانا اتنا مشکل نہیں ہے’ ادارے پہلے سے موجود ہیں’ جن کی ملی بھگت کے بغیر اشیاء کو مہنگے داموں بیچنا بہت مشکل کام ہے’ ذخیرہ اندوز اور گراں فروش مافیا حکومتی اداروں کی روایتی سستی کا فائدہ اُٹھا کر ہر سال رمضان المبارک میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے۔ جب تک حکومتی ادارے اس کا نوٹس لیتے ہیں یا اس کے خلاف کارروائی کا اعلان کرتے ہیں تب تک رمضان المبارک ختم ہو چکا ہوتا ہے اور محض ایک ماہ میں گراں فروش اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکال چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گراں فروشی سے نمٹنے کا مکمل میکنزم رمضان شروع ہونے سے پہلے موجود ہونا چاہیے اور رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوجانا چاہیے ، حکومتی اداروں کو تب تک حرکت میںرہنا چاہیے جب تک رمضان کا مہینہ پورا نہ ہو جائے۔ حکومت کو مٹھی بھر مفاد پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بننے اور ان کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کی بجائے سرکاری نرخوں پر اشیاء کی فروخت یقینی بنانے اور گراں فروشی کے سدباب کیلئے پولیس و سول انتظامیہ پر مشتمل ایسی خصوصی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں کہ جو رمضان المبارک کے دوران اور اس کے بعد مہنگائی’ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھاک میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں