2 163

مشرقیات

حضرت مصعب بن عبداللہ کا بیان ہے : ” خلیفہ ہارون الرشید کا دور خلافت تھا’ حضرت عبید بن ظبیان رقہ (شام کا شہر) کے قاضی تھے اور اس شہر کا امیر (یعنی گورنر) عیسیٰ بن جعفر عباسی تھا۔ حضرت عبید بن ظبیان ایک با ہمت’ عادل اور رحم دل قاضی تھے۔ ایک مرتبہ ان کی عدالت میں ایک شخص آیا اور گورنر ”عیسیٰ بن جعفر” کے خلاف دعویٰ کیا کہ اس نے مجھ سے پانچ لاکھ درہم لئے تھے اور اب دینے سے انکار کر رہا ہے۔ جب آپ نے اس کی بات سنی تو فوراً کاتب کو بلایا اور فرمایا: امیر شہرکے نام پیغام لکھو۔قاضی صاحب نے خط پر مہر ثبت فرمائی اور ایک شخص کو وہ خط دے کر امیر( گورنر) کے پاس بھیج دیا۔ جب قاصد نے جا کر بتایا کہ قاضی کی طرف سے آپ کو خط آیا ہے تو گورنر نے اس خط کو کوئی اہمیت نہ دی اور اپنے خادم کو بلا کر وہ خط اس کے حوالے کردیا۔ جب قاصد نے دیکھا کہ قاضی کے خط کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی تو وہ واپس لوٹ آیا اور سارا واقعہ قاضی کو بتایا۔قاضی نے دو بار اسی طرح خط بھیجا مگر عیسیٰ بن جعفر نے اسی طرح کا سلوک کیا جس پر قاضی نے اسی سوچ کی بنا پر اپنے تمام کاغذات وغیرہ ایک تھیلے میں بھرے اور گھر کی طرف روانہ ہوگئے اور عدالت میں آنا چھوڑ دیا۔ جب معاملہ طول پکڑ گیا اور آپ عدالت میں نہ آئے تو لوگوں نے خلیفہ ہارون الرشید کو بتایا خلیفہ ہارو ن الرشید نے فوراً آپ کو اپنے پاس بلوایا۔ہارون الرشید نے جب قاضی صاحب کی درد بھری داستان سنی تو اسی وقت ابراہیم بن اسحاق سے فرمایا: ” فوراً عیسیٰ بن جعفر کی رہائش گاہ پر جائو اور اس کے گھر کے تمام راستے بند کردو۔ جب تک عیسیٰ بن جعفر اس مظلوم حقدار کا حق ادا نہیں کرے گا وہ اسی طرح نظر بند رہے گا۔ حکم پاتے ہی ابراہیم بن اسحاق نے 50شہسواروں کو لے کر عیسیٰ بن جعفر کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرلیا۔ عیسیٰ بن جعفر یہ صورتحال دیکھ کر بہت پریشان ہوگیا اور ابراہیم بن اسحاق کو ملاقات کا پیغام بھجوایا۔ جب ابراہیم بن اسحاق اس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا: ” خلیفہ نے ہمیں اس طرح قید کیوں کروادیا ہے؟” اس نے بتایا: ” یہ سب قاضی ابن ظبیان کی وجہ سے کیاگیا ہے۔ جب عیسیٰ بن جعفر کو سارا معاملہ معلوم ہوگیا تو اسے احساس ہوگیا کہ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔ میں نے طاقت و عہدے کے نشے میں ایک مظلوم کی بد دعا لی جس کی وجہ سے مجھے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر عیسیٰ بن جعفر نے اس شخص کو بلوایا جس سے پانچ لاکھ درہم لئے تھے اسے وہ درہم واپس کئے ۔ اس سے معذرت کی اور آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ اب معاملہ بالکل ختم ہوچکا تھا۔ جب خلیفتہ المسلمین ہارون الرشید کو اطلاع ملی کہ عیسیٰ بن جعفر نے مظلوم کا حق ادا کردیا ہے اور اس سے معافی بھی مانگ لی ہے تو اس نے حکم دیا کہ اب محاصرہ ختم کردیا جائے۔ پھر آپ نے اسے پیغام بھجوایا کہ کبھی بھی کسی پر ظلم نہ کرنا۔ یہ عہدہ و منصب سب عارضی چیزیں ہیں ان کے بل بوتے پر کسی کو تنگ کرنا بہادری نہیں۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن