2 164

ہمارے مسیحا

یہ جو قاتل وائرس کرونا کی وباء پھیلی ہے یہ قدرت خداوندی کی کارستانی نہیں، ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا مالک ہم سے ہرگز ناراض نہیں ہوا، شیطانی طاغوتی اور دجالی قوتیں ہم سے حسد کرنے لگی ہیں
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاک کاشغر
کی ادا پسند نہ تھی اس کو، اگر کائنات کن فیکون کا مالک جو قادر مطلق ہے ہم سے ناراض ہو جاتا تو اس کے ایک اشارے سے یہ دنیا نیست ونابود ہوجاتی، یہ جو کرونا وائرس کی ہوائی ہے نا، کسی اسلام دشمن نے اُڑائی ہے، کہ اس سے
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
جیسی صف بندی دیکھی نہ جاسکی، ہمیں تو خلیفہ بنا کر بھیجا گیا تھا اس زمین پر، ہم یہاں پہنچ کر اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہنے لگے تھے، اہل یورپ کی دانش ہمیں کیا اپنے آپ کو بھی سماجی جانور یا سوشل اینیمل کہہ کر پکارتی تھی کہ ہم اپنے جیسے بہت سے جانوروں کی طرح ایک ایک سماج بنا کر، قوم قبیلوں کی صورت زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے تھے، لیکن عالم ہست وبود کے کیمیائی عناصر پر دسترس رکھنے والوں نے ہمارے ہر سماج کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی، محض اس لئے کہ ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے
دکھائی بھی نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے، وہی خدا ہے
ابلیس تھا اس گستاخ کا نام جس نے مسجود ملائک کے آگے جھکنے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ٹھہرا، دنیا والے اسے شیطان مردود کے نام سے جانتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ شیطان کسی صیغہ واحد کا نام نہیں، اس دنیا میں جدھر دیکھو شیاطین کی فوج ظفرموج بکھری پڑی ہے، کوئی چھوٹا شیطان ہے تو کوئی بڑا اور کوئی اتنا بڑا کہ ابلیس بھی اس کی حرکتوں کو دیکھ کر زیرلب مسکرا کر اپنی گردن کو نیچا کردے، میں اپنے کالموں میں ذخیرہ اندوزوں، گران فروشوں، چور بازاروں، رشوت خوروں، اقرباء پروروں، منشیات فروشوں کا رونا رو روکر تھک گیا ہوں، نہیں بچے ان پتھرائی ہوئی آنکھوں میں وہ آنسو جو شیطانوں کی شیطانیت کو دھونے کی اپنی سی کوشش کرکے خاموش ہو رہیں، ہم کہتے رہ گئے کہ
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اور دوسری جانب قرطاس وقلم اور زبان وبیاں کی بولیاں لگتی رہیں، جہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہنا کر پیش کیا جاتا ہو، جہاں قانون غریبوں کیلئے ہوں، انصاف کوڑیوں کے دام بک رہا ہو، اس نگر کو شیاطین کی آماجگاہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہہ کر پکارا جائے، کہا نا کہ ابلیس صرف ایک تھا لیکن حضرت آدم کے اس کرۂ ارض پر اُترنے سے پہلے یہاں جنات اور شیاطین کی عمل داری تھی، اللہ نے ان کی اصلاح کیلئے پیمبر بھی بھیجے تھے لیکن وہ اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے کہ پیروکار تھے وہ سب ابلیس مردود کے کرۂ ارض پر حضرت آدم اور اماں حوا کے در آنے کے بعد ان کی سرگرمیوں میں ٹھہراؤ آگیا، لیکن درپردہ وہ اپنے حربوں کو جاری رکھے رہے، وہ اولاد آدم کو اپنے ساتھ ملا کر زمین پر شر، فساد اور نازیبا حرکات کا سلسلہ جاری رکھنے میں کامیاب رہے، وہ چاہتے تھے کہ اللہ جل شانہ اولاد آدم سے ناراض ہو جائے اور اپنا عذاب نازل کر کے نیست ونابود کردے نسل انسانی کو، شیطانوں کی اس شیطانیت کی وجہ سے متعدد بار اُترا زمین والوں پر اللہ کا عذاب، لیکن قدرت خداوندی اس زمین کو اور اس زمین پر رہنے والوں کو شاد اور آباد دیکھنا چاہتی تھی، شیطانوں کے چنگل میں پھنسے لوگ کفران نعمت کرتے رہے اور زمین وآسمان کے درمیان معلق چاند ستارے اور قدرت کے حسین نظارے پکار پکار کر کہتے رہے کہ ”تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے” لیکن کرۂ ارض پر آکر بود وباش کرنے والی نسل آدم شیاطین اور ان کے چیلوں کیساتھ سازباز کرکے اسلحہ، گولہ بارود، نت نئے ہتھیار، انسانیت کش اور انسانیت سوز ایجادات کرکے رحمت خداوندی کو چیلنج کرنے لگے، اللہ قسم یہ کرونا وائرس میرے رب رحیم نے نہیں بھیجا، وہ تو
حسن یوسف، دم عیسیٰ، یدبیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
جیسی معجزہ سراپا ہستی کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجنے کا خوگر تھا، یہ نظر نہ آنے والا قاتل کرونا اس ذات گرامی کی تخلیق نہیں ہوسکتی، وہ تو کرونا وائرس کیخلاف نبردآزما ڈاکٹروں، نرسوں اور اس کیخلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ہر اول دستہ کو وجود میں لاتا ہے جو اس قاتل وائرس سے لڑتے ہوئے جام شہادت تک نوش کرنے کی منزل کو پالیتے ہیں، کرونا وائرس کے پہلے شہید گبرو جوان ڈاکٹر اُسامہ نے جام شہادت نوش کرنے سے پہلے قوم کے نام پیغام میں کہہ دیا تھا کہ تم نے اپنی حفاظت خود کرنی ہے، یقینا ہمارے ڈکٹرز، نرسیں، محکمہ صحت کا عملہ، بلدیات والے، ہماری پولیس اور افواج پاکستان اور ملکی قیادت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اس محاذ پر کھڑے ہیں، جہاں زندگی کے ہر موڑ پر معالجوں، چارہ گروں یا مسیحاؤں کی شہہ حاصل ہے اور ہم ہیں کہ اپنے قلم قلم ہاتھ لئے اشکوں کی روشنائی سے ان کے نام عقیدتوں بھرا سلام ہی لکھنے کیلئے باقی رہ گئے ہیں
دم عیسیٰ ان کو ودیعت ہوا تھا
بنے دکھیوں کے جو سہارے مسیحا
شہادت کا رتبہ ملا صرف ان کو
بہت جو خدا کے ہیں پیارے مسیحا

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان