5 86

بھارت گھر کے موسم کی خبر لے

بھارت کے سرکاری دودرشن ٹی وی اور آل انڈیا ریڈیونے ملک بھر کے موسم کی خبروں میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے موسم کا احوال بھی سنانا شروع کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی بھارتی تجزیہ نگاروں ، ٹی وی میزبانوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کی زبانوں نے یہ شعلے اُگلنا شروع کر دئیے ہیں اب بھارتی حکومت کو آگے بڑھ کر آزادکشمیر اور گلگت پر قبضہ کرنا چاہئے ۔بھارتی فوج کے سربراہ نے بھی یہ بات کی ہے کہ اس حملے کے حوالے سے تمام انتظامات مکمل ہیں اور صرف حکومت کے احکامات کا انتظار ہے۔پانچ اگست کو جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت کرنے کا قانون پارلیمنٹ میں منظور کیا تھا تو وزیر داخلہ امیت شاہ نے وضاحت کے ساتھ کہا تھا کہ جموں وکشمیر سے مراد آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پوری ریاست ہے۔اب بھارتیوں نے آزادکشمیر اور گلگت پر ترنگا لہرانے کے نعروں میں شدت پیدا کر دی ہے ۔ایک مخصوص ہندو ذہنیت کے تجزیہ نگار اس مجہولانہ قسم کے تصور کی بڑھ چڑھ کر حمایت کر رہے ہیں ۔حکومت پاکستان ان ساری باتوں اور دھمکیوں کے جواب میں بھارت کی طرف سے فالز فلیگ آپریشن کے خطرے کی دُہائی دے رہے ہیں ۔کنٹرول لائن شدید کشیدگی کی زد میں ہے اور بھارت کی جنگی تیاریاں زوروں پر ہیں ۔بھارت کی واحد بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر کی زمین اس کے پیروں تلے نہیں ۔وادی بھارت کے خلاف ایک آتش فشاں کا روپ دھارے ہوئے ہے اور کسی بھی جنگ میں آبادی کا ساتھ ہونا فتح کی کلید ہوتا ہے مگر کشمیری بھارت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ہر قیمت پر استخلاص ِ وطن کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر بھارت کا دعویٰ نیا ہے نہ حملے اور قبضے کی باتیں انوکھی ہیں ۔بھارت بہتر سال سے چھیچھڑوں کے خواب دیکھ رہا ہے ۔مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں آزادکشمیر اور گلگت کے لئے پچیس خالی نشستیں بہتر سال سے خالی ہی پڑی ہیں اور بھارت کو اپنے عزائم اور ارادوں پر عمل کرنے کی جرات نہیں ہوئی ۔اب ٹی وی پر موسم کا حال بتانے پر غالب کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ” جی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے” ۔بھارت یہ بات بھول رہا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ایک لائن مقرر کئے ہوئے ہے ۔دنیا میں جو تقسیم اُبھری ہے اس میںپاکستان کو سفارتی سطح پر کسی بڑی کامیابی کا امکان نہیں کیونکہ بھارت اس وقت امریکہ کے کندھوں پر ناچ رہا ہے ۔امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے کے لئے تیار کر رہا ہے ۔پاکستان چین کے ساتھ پوری قوت سے کھڑا ہے بلکہ سی پیک کے ذریعے چین کا باقی دنیا تک رسائی دینے میں پیش پیش ہے ۔امریکہ اور اس کے زیر اثر بلاک اور ملکوں سے کسی خیر کی توقع نہیں ۔موجودہ حالات میں ان کی طرف سے پاکستان کو کشمیر پر کوئی بڑی حمایت ملنا یا بھارت کے خلاف پابندیاں عائد کرکے اس کی کلائی مروڑنابعید از قیاس ہے۔سی پیک مخالف رنگی برنگی دہشت گردی کو امریکہ اور بھارت کی حمایت حاصل ہے ۔اس لئے بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کے جواب میں پاکستان کو اپنے زور باز پر بھروسہ کرنا ہے ۔اس دوران بھارت اور چین کی سرحد پرلائن آف ایکچوئل کنٹرول پر سکم کے علاقے میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان تصادم میں کئی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔سکم کے علاقے میں چین ایک سڑک تعمیر کر رہا ہے اور یہ مسئلہ برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان وجہ نزع ہے ۔حتیٰ کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کاآغاز اسی علاقے سے چل پڑنے والی کشیدگی سے ہوا تھا ۔1975میں بھارت نے سکم کے علاقے کو اپنا حصہ بنایا ہے اس سے پہلے یہ علاقہ بھارت کا حصہ نہیں تھا اور چین سکم پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے ۔اس علاقے میں چین کی فوج ہر سال آہستگی کے ساتھ پیش قدمی کرتی رہی ہے مگر بھارت کو اس کا راستہ روکنے کی جرات نہیں ہوئی ۔اب یہ علاقہ چین اور بھارت کے درمیان کھٹ پٹ کا مرکز ہے ۔چین چاہے تو معمولی سی پیش قدمی کرکے بھارت کی شمالی مشرقی ریاستوں کو باقی ملک سے کاٹ کر رکھ سکتا ہے ۔ان میں آسام ،ناگالینڈ میزورام اور منی پور جیسی ریاستیں شامل ہیں جہاں مدت دراز سے علیٰحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ان ریاستوں کو باقی بھارت سے ایک چھوٹی سے پٹی ملاتی ہے اور اس پٹی پر چین کا وار بھارت کو دوحصوں میں تقسیم کر سکتا ہے ۔اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے گلگت پر حملے کی دھمکیوں کو دیکھا جائے تو اس میں سی پیک کو ناکام بنانے کے عزائم صاف جھلکتے ہیں۔ایسا سوچتے ہوئے بھارت یہ بات فراموش کر رہا ہے کہ سی پیک پرچین بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے اور یہ صرف ایک سڑک نہیں آزاد دنیا میں اس کی سانس لینے کی واحد کھڑکی ہے ۔خدانخواستہ گلگت بلتستان کاراستہ بند ہوا تو چین کا گھیرائو اور اس کے گلے کا پھندہ مکمل ہوجاتا ہے ۔چین اور پاکستان سی پیک مخالف سرگرمیوں پر مشترکہ اور متحدہ ردعمل دکھانے کے عہد وپیماں بھی کئے ہوئے ہیں ۔اس لئے ایسی کوئی بھی حماقت بھارت کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔اس لئے بھارت کی طرف سے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے موسم کا احوال بتانے میں کوئی نیا پن نہیں یہ پرانی سوچ کا ایک اور پہلو سے اظہار ہے ۔آزادکشمیر اور گلگت بلتستان تو بھارت کے لئے کھٹے انگور ہیں مگر سکم پر اس کا کنٹرول ہے اور سکم کے ساتھ جڑی سات ریاستیں اس کا حصہ ہیں ان ریاستوں سے محرومی ایک بڑے حصے سے محرومی ہو گی ۔یہ بات بھارت پوری طرح سمجھ چکا ہے اسی لئے اس کے فوجی ماہرین ہمیشہ دومحاذوں کی جنگ کی بات بھی کرتے ہیں اور اس حوالے سے جنگی تیاریاں بھی کرتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''