editorial 4 1

کوئی ہنسے گا کوئی روئے گا

جب امتحانات منسوخ ہوئے تو طلبہ کی اکثریت نے خوشی کا اظہار کیا کچھ تو باقاعدہ بھنگڑے بھی ڈالتے رہے، ایسے طلبہ بھی تھے جو اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ حالات ہی ایسے ہیں کہ طلبہ کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا اس لئے اس قسم کے فیصلے احتیاط کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کئے گئے، اب نئی صورتحال یہ ہے کہ وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات منسوخ ہونے سے متعلق جو ابہام تھا اسے دور کر دیا ہے، امتحانات کے حوالے سے ان کا تازہ ترین اعلان یہ ہے کہ ملک بھر میں نویں سے دسویں اور گیارہویں سے بارہویں جماعت میں پروموٹ ہونے والے طلبہ امتحان نہیں دیں گے اور یہ طلبہ آئندہ برس کمبائن پرچے بھی نہیں دیں گے، انہیں آئندہ برس صرف دسویں اور بارہویں کے امتحان دینے ہوں گے۔ اس حوالے سے طلبہ کے چار مختلف درجات بنائے گئے ہیں، جن سے آنے والے ستمبر اور نومبر کے درمیان امتحان لیا جاسکتا ہے، پہلے درجے میں وہ طلبہ ہوں گے جو اپنے گیارہویں کے نمبروں سے مطمئن نہیں ہیں اور بارہویں کے امتحان میں بہتر نمبر حاصل کرنا چاہتے ہیں، دوسرے درجے میں وہ طلبہ شامل ہیں جنہوں نے اس سال اکٹھے امتحان دینا تھا، تیسرے درجے میں وہ طلبہ آتے ہیں جو کچھ مضامین میں بہتری کیلئے یا زیادہ نمبر حاصل کرنے کیلئے امتحان دینا چاہتے تھے اور چوتھے درجے میں وہ طلبہ آتے ہیں جو چالیس فیصد سے زیادہ مضامین میں فیل ہیں! اب تمام طالب علم اپنے اپنے درجے میں ان امتحانات میں سرخرو ہونے کیلئے لنگر لنگوٹ کس کر تیاری شروع کر دیں۔ کرونا نے جہاں زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہاں معصوم طلبہ بھی اس کے وار سے محفوظ نہیں ہیں! امتحانات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے کوئی فیل ہوتا ہے تو کوئی پاس؟ بچپن میں نتیجہ نکلنے سے پہلے تمام بچے ملکر باآواز بلند ایک راگ الاپا کرتے تھے: کل نتیجہ نکلے گا کوئی ہنسے گا کوئی روئے گا! پاس ہونے والے بچوں کو نئی کتابوں، کاپیوں اور نئی کلاس کی خوشی ہوتی تھی اور فیل ہونے والے بچوں کو یہ دکھ تھا کہ وہ پھر اسی پرانی کلاس میں ایک سال اور گزاریں گے! امتحانات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ہمیں تعلیم کے مقصد کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ ہم کس قسم کی تعلیم دے رہے ہیں اور کس قسم کے طالب علم تیار کررہے ہیں؟ ہمارے نظام تعلیم کو ابھی اس پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایسے طالب علم پیدا کرے جن کے اندر سوچنے سمجھنے اور خود سے سیکھنے کی صلاحیت ہو، وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو تنقیدی نظر سے دیکھ سکیں۔ ہم اپنے طالب علموں کو وہ چیزیں سکھائیں جن کی انہیں عصر حاضر میں ترقی کرنے کیلئے ضرورت ہے۔ وہ زندگی کے مسائل حل کرنا سیکھ جائیں اس کیساتھ ساتھ طلبہ کے اندر سیکھنے کی شدید خواہش بیدار کی جائے۔ ایسی خواہش کے وہ ساری زندگی سیکھنے کے عمل کو ترک نہ کریں، ہماری دینی تعلیمات میں بھی ہمیں یہی کہا گیا ہے کہ مہد سے لیکر لحد تک تعلیم حاصل کرو یوں کہئے کہ تعلیم حاصل کرنا کچھ نیا سیکھنا اپنی ذات میں مقصد ہو۔ ہماری تعلیم صرف ڈگریوں کے حصول تک محدود نہیں ہونی چاہئے جس کے بعد ہمارے طالب علم نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں، انہیں اپنی صلاحیتوں سے باخبر ہونا چاہئے ہمارا نظام تعلیم طلبہ کو یہ بھی سکھائے کہ وہ جس معاشرے کا حصہ ہیں انہوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہے، انہوں نے اپنے معاشرے کیلئے کچھ نہ کچھ ضرورcontribute کرنا ہے، ہمارے طالب علم نہ صرف یہ کہ علم رکھتے ہوں بلکہ اپنے پڑھے ہوئے اپنے سیکھے ہوئے کو مختلف مسائل کے حل کرنے کیلئے استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتے ہوں۔ وہ روحانی اور جسمانی طور پر صحت مند ہوں وہ اپنی اقدار اپنی valuesسے باخبر بھی ہوں ان کا احترام بھی کرتے ہوں اور خیال بھی رکھتے ہوں! ان کی تعلیم انہیں بااخلاق اور باخبر بنائے وہ موجودہ زمانے کے چیلنجز کا سامنا کرنا جانتے ہوں یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارا نظام تعلیم انہیں اس سب کچھ کیلئے تیار کرسکے! ہم ابھی تک اسی پرانے اور بوسیدہ نظام تعلیم کیساتھ چمٹے ہوئے ہیں جس میں ہر سال پرانے پرچہ جات کی روشنی میں نئے پرچے بنا کر طلبہ سے امتحان لے لیا جاتا ہے۔ اس طرح طلبہ آسانی سے امتحان تو پاس کرلیتے ہیں لیکن ان میں وہ صلاحیتیں پیدا نہیں ہوتیں جن کا ذکر بالائی سطروں میں کیا گیا ہے۔ وہ اپنے سیکھے ہوئے کو بیان نہیں کرسکتے، انہیں communication کا ہنر نہیں آتا۔ آج کل ہمارے یہاں بی ایس رائج ہے طلبہ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی ایس میں داخلہ لیتے ہیں لیکن صورتحال یہ ہوتی ہے کہ وہ اردو یا انگلش کی چار سطریں بھی ٹھیک طرح سے نہیں لکھ سکتے! اس میں طلبہ قصور وار نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے اسی بوسیدہ نظام تعلیم کا شاخسانہ ہے جو انہیں انٹرمیڈیٹ تک انگریزی یا اُردو لکھنا نہیں سکھا سکا جس میں بچوں کی صلاحیتوں سے زیادہ امتحانات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے اور اس طرح ہر سال ہمیںکچھ نئے طوطے مل جاتے ہیں جو رٹی رٹائی چیزوں کو دہرا تو سکتے ہیں مگر ان سے کام نہیں لے سکتے، ان کے اندر موجود صلاحیتیں بیدا ر نہیں ہونے پاتیں۔

مزید پڑھیں:  گھاس کھاتا فلسطینی بچہ کیا کہتا ہے؟