logo 15

مشرقیات

خواجہ فضیل! اونچے پورے’ بڑے کلے جبڑے کے آدمی تھے۔ ترنگ میں ہوتے تو مست ہاتھی کی طرح جھولتے۔ ان کے بٹ ماروں کی ٹولی نے ایک بار طے کیا کہ ایک قافلہ جو پاس سے گزرنے والا تھا اسے لوٹا جائے۔ راستے میں ایک جگہ تھی جہاں کارواں ٹھیکی لینے کے لئے رکتے۔ وہاں یہ قافلہ بھی رکا۔ تھوڑی دیر میں ہاوہو کاایک طوفان اٹھا۔ گھوڑوں کی ٹاپوں میں ہتھیاروں کی جھنکار نے بس اللہ کے بندوں کو ایسا خوفزدہ کیا کہ ساز و سامان مال و اسباب چھوڑ کر جس کا جدھر منہ اٹھا ادھر بھاگ کھڑا ہوا۔ ڈاکو اپنی دھن کے پکے ہر جذبے سے بے پرواہ ہر احساس سے عاری اپنی جھولیاں بھر بھر کے نکل رہے تھے کہ ڈاکوئوں کے سردار خواجہ فضیل قافلے کے ایک ایسے حصے میں پہنچے جہاں ایک شخص کچھ پڑھ رہا تھا۔ ۔۔۔۔یہ سخت غصے میں بھنائے ہوئے قریب گئے۔ غصہ اس بات کا تھا کہ اس شخص کو نہ لوٹ مار کا ڈر تھا نہ ڈاکوئوں کا خوف۔ فضیل آگے بڑھے تو ان کے کان میں وہ الفاظ پڑے جو اس وقت وہ شخص پڑھ رہا تھا۔ یہ اللہ کے کلام کے الفاظ تھے جو آیت فضیل نے سنی وہ سورہ حدید کی سولہویں آیت تھی۔ ارشاد ربانی ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ کے ذکر اور اس کی ہیبت و جلال سے کپکپا اٹھیں۔ اللہ کے کلام کی برکتیں بے حساب ہیں۔ وہ سورہ طہٰ کی ایک آیت ہی تو تھی جس نے ابو حفص عمر بن خطاب کا دل پھیر دیا تھا پھر اللہ نے ان کے درجات کو اتنا بڑھایا اتنا بڑھایا کہ ایک موقع پر نبی آخر الزماں نے ارشاد فرمایا۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اگر کوئی ہوتا تو عمر بن خطاب نبی ہوتے۔
وقت کی بات اللہ کے کلام کا فضیل کے دل پر اس وقت کچھ ایسا اثر ہوا کہ ان کا دل بدل گیا ۔ ہتھیار پھینک دئیے۔
گھوڑا چھوڑ دیا۔ دوستوں سے منہ موڑ لیا۔ سیدھے جنگل میں گئے۔ تنہائی کی جگہ ڈھونڈی اور وہاں پہنچ کر بے اختیار رونے لگے۔ اس قدر روئے اس قدر روئے کہ آنسو تھمتے نہ تھے پھر بار گاہ خداوندی میں توبہ کی اور گھر چھوڑ کر جنگل ہی کو اپنا گھر بنا لیا۔ خزینتہ الاصفیا میں ہے حضرت فضیل بن عیاض کا ان دنوں عالم یہ تھا کہ نگری نگری شہر شہر گھومتے ان قافلے والوں کا پتہ لگاتے جن کا مال لوٹا تھا۔ ایک ایک چیز انہیں واپس کرتے اور ایک ایک سے معافی مانگتے۔ سورہ شمس میں ارشاد ربانی ہے۔ اللہ نے اچھائی اور برائی دونوں گن آدمی میں رکھے ہیں۔ ساتھ ہی اسے عقل دی اور پیغمبروں کو بھیج کر سیدھی راہ دکھائی۔ اب چاہے وہ اپنے کو اچھے سے اچھا بنا لے چاہے لفنگے سے لفنگا بن کر دوزخ کاچارہ بن جائے۔ حضرت مقداد بن اسود روایت کرتے تھے۔ آدمی کا دل بڑا پلٹنے والا ہوتا ہے کیوں نہ ہم اسے اچھائیوں کی طرف کرلیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم توبہ کرو میں توبہ قبول کرتا ہوں مگر جب ایک بار توبہ کرو تو مضبوطی سے اس پر جمے رہو۔ (روشنی)

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار