mushtaq shabab 11

چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اُترجاتا ہے

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ صوبے پبلک ٹرانسپورٹ کھول دیں، وائرس کیساتھ گزارہ کرنا ہوگا، گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا تھا کہ کورونا وائرس شاید کبھی ختم نہ ہو اور جس طرح دنیا کو ایڈز کیساتھ زندہ رہنے پرمجبور ہونا پڑ رہا ہے اسی طرح کورونا وائرس بھی کبھی ختم ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے، ادھر پاکستان کو کورونا وائرس کے ویکسین کی تیاری کا لائسنس ملنے سے اُمید پیدا ہوگئی ہے کہ جس طرح مشہور ہے کہ جب بھی دنیا میں نئی زندگی جنم لیتی ہے تو اس سے واضح ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا، یعنی نئے انسانوں کے جنم کیساتھ اللہ تعالیٰ کی اپنی ہی مخلوق پر اعتماد میں اضافہ ہوجاتا ہے، بہرحال جب پاکستان جیسے ترقی پذیر بلکہ انتہائی ترقی پذیر ملک کو بھی اللہ تعالیٰ نے اتنی صلاحیت سے نوازدیا ہو کہ وہ سائنس وٹیکنالوجی میں خاصی ترقی کرنیوالے ممالک کے مقابلے میں بھی آگے آکر کرونا کے ویکسین کی تیاری کے لائیسنس حاصل کر کے عالمی سطح پر اپنے اوپریہ اعتماد قائم کروانے میں کامیاب ہورہا ہے کہ دنیا بخوشی انہیں اس بیماری سے نبردآزما ہونے کا لائسنس تھما دیتی ہے تو پھر یہ جو ڈبلیو ایچ او جیسے ادارے مایوسی پھیلانے کی کوشش کررہی ہیں ان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے بلکہ ایسے مواقع پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ منہ ٹیڑھا ہو تو کم ازکم بات تو اس سے اچھی نکالنی چاہئے تاکہ کسی کو کمی کا احساس نہ ہو، ویسے بھی ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بیماری پیدا ہی نہیں کی جس کا علاج پہلے ہی دنیا میں نہ بھیج دیا ہو، ہاں البتہ موت کاکوئی علاج نہیں ہے کہ بقول شاعر
موت سے کس کورستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
حضور اکرمۖ کے فرمودات عالیہ بعض جڑی بوٹیوں کے حوالے سے طب نبویۖکے حوالوں سے بہت ہی مستند حوالوں کیساتھ آتی ہیں، مثلاً کلونجی کے استعمال کے مختلف طریقوں سے کئی طرح کے امراض کا علاج دریافت کرنے کی باتیں عام ہیں، کہیں اس کو براہ راست استعمال کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں کہیں اس سے تیل کشید کر کے مختلف بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عجوہ کھجور کے مختلف طریقوں کیساتھ کھانے، اس کی گٹھلی کو پیس کر ایک خاص ترکیب سے شہد کیساتھ استعمال کرنے سے دل کے امراض کا شافی علاج بتایا جاتا ہے، غرض مختلف جڑی بوٹیوں، پھل فروٹ وغیرہ کے جو نسخے طب نبویۖ میں رائج ہیں اور صرف سمجھدار حکماء واطباء ہی نے ان کے طریقے بیان کئے ہیں، ان کے استعمال سے بہت حد تک استفادہ کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ بندے کا ایمان مضبوط ہو۔ اس لئے یہ جو پاکستان کو کورونا ویکسین کی تیاری کا لائسنس مل گیا ہے تو اُمید ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں اس حوالے سے پیش رفت ممکن ہو سکے گی اور پھر ڈبلیو ایچ او بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ پاکستان زندہ باد۔ بقول مرزا غالب
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
جس طرح ایڈز کے بعد کورونا وائرس کیساتھ عالمی ادارہ صحت نے زندگی گزارنے کی بات کی ہے کچھ اسی طرح ہم کئی برس سے رمضان اور عیدین کے چاند کیساتھ بھی وقت گزارنے پر مجبور ہیں، مثلاً آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 23مئی کو طلب کرلیا گیا ہے، ساتھ ہی خبر میں یہ پخ بھی لگا دی گئی ہے کہ رواں سال بھی ممکنہ طور پر دو عیدوں کی روایت برقرارہے اور آخر ایسا کیوں نہ ہو کہ رمضان کے چاند پر تو پہلے ہی خیبر پختونخوا اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی تقسیم ہو چکی تھی اور دونوں کے روزوں میں ایک روز کا فرق واضح ہوچکا تھا، اس سلسلے میں پشاور کے ایک سینئر صحافی نے فیس بک پر خیبر پختونخوا میں چودھویں کے چاند جبکہ مرکزمیں تیرھویں کے چاند کی تصویریں ڈال کر دونوں میں کوئی فرق نہ ہونے کا دعویٰ کر کے ثابت کر دیا تھا کہ اگر خیبر پختونخوا میں جس روز چودھویں کا چاند تھا یعنی فل مون اصولاً اس روز باقی پاکستان میں ایک روز کم تیرھویں کا چند اصولاً کچھ کم ہونا چاہئے تھا لیکن دونوں چاند ایک ہی سائز اور کسی کمی پیشی کے تھے، اس لئے پھر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو کیونکر درست تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ بہرحال اب ایک بار پھر دونوں کمیٹیوں میں مسابقت کی دوڑ حسب معمول شروع ہوچکی ہے اور اس کا ایک حل تو یہ نکل سکتا ہے کہ خیبر پختونخوا والی کمیٹی رمضان پورے تیس کا جبکہ مرکزی رویت ہلال 29کا کرنے کا فیصلہ کرے تو پھر دونوں ایک پیج پر آسکتی ہیں اور اگر مسجد قاسم علی خان رمضان کے بعد عید کے چاند کی رویت بھی 29روزوں کے بعد قرار دے کر صرف 29روزوں پر اکتفا کرے تو پھر مرکزی رویت ہلال کمیٹی بھی اگر رمضان کے روزے 29قرار دے کر اپنا چاند طلوع کروائے تو فرق ایک دن کا رہ جائے گا اور اگرماضی کی بعض برسوں کی طرح رمضان کے روزے بھی تیس رکھنے پر اصرار کرے تو پھر دودن کا فرق پیدا ہو جانے کا احتمال ہے، یعنی بقول شاعر
چاند نکلا ہے ترے بعد تو یوں لگتا ہے
میرے آنگن کا پتہ بھول گیا ہو جیسے

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد