p613 7

صوبائی دارالحکومت کی رہائشی ضروریات کے تقاضے

پشاور کی گنجان ہوتی آبادی اور زرعی اراضی پر بھی مکانات بننے سے تیزی سے کم ہوتا رقبہ سبزہ وباغات اور فصل آور زمین کے ختم ہونے سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ جیسے مزید مسائل سے شہر کا حسن گہنا ہی نہیں گیا بلکہ یہاں سانس لینا بھی دشوار ہورہا ہے۔ ٹریفک کے مسائل میں اضافہ اور بڑھتی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل سے قطع نظر صوبائی دارالحکومت میں دس منزل سے اونچی عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں، اسی طرح پشاور ماڈل ہاؤسنگ سکیم میں پیشرفت بڑھتی آبادی کی رہائشی ضروریات میں کمی لانے کی ایک اچھی کوشش ہوگی۔ صوبائی دارالحکومت میں سالانہ بڑھتی آبادی کی رہائشی ضروریات اتنی بڑھ گئی ہیں اور دیگر علاقوں سے آنے والوں کے باعث شہر کی یہ کیفیت ہوگئی ہے کہ سالانہ بنیادوں پر ایک بڑی نئی بستی بسائی جائے چونکہ اس کی گنجائش محدود اور منصوبہ بندی کے تقاضوں کے بھی برعکس ہے۔ اس کے بعد بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینے کا ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں بلند وبالا عمارتوں میں بہتر انتظامات اور منصوبہ بندی کیساتھ لوگوں کو رہائشی سہولیات دینے کا ابھی رواج نہیں لیکن ایک آدھ ایسی عمارت کی مثال موجود ہے جہاں جدید رہائشی ضروریات وسہولیات اور حفاظتی اقدامات کا خیال رکھا گیا ہے اور اس کے مکین اس کے ماحول سے مطمئن ہیں۔ بلند وبانگ عمارتوں کی تعمیر کے مقامات کا یقیناً سوچ سمجھ کر اجازت دینے کی ضرورت ہوگی، ساتھ ہی حکومت کو ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہوگا کہ صوبائی دارالحکومت میں بننے والی عمارتیں جدت کیساتھ ضروری سہولیات سے بھی آراستہ ہوں، خاص طور پر پارکنگ کے بہتر انتظامات اور مناسب کھلی جگہیں رکھنے کی پابندی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا جائے، نیز حکومت ایسے بلڈروں کو بڑی عمارتیں بنانے کی اجازت دے جو تجربے کے حامل اور سنجیدہ کاروباری ادارے ہوں تاکہ عوام کی سرمایہ کاری کا تحفظ ہوسکے اور ان کو مقررہ مدت کے اندر رہائش کی سہولت ملنا یقینی ہو۔ بلند وبالا عمارتوں کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو لوگوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی پر بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ خواہشمند افراد اس سے فائدہ اُٹھا سکیں، مرکزی حکومت کی طرف سے تعمیرات کے شعبے کیلئے جن مراعات اور سہولیات کا اعلان کیا گیا ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ اس سے فائدہ اُٹھا کر صوبائی دارالحکومت میں مناسب رہائشی سہولیات کی حامل عمارتیں بننا شروع ہو جائیں گی، ریگی للمہ ٹاؤن شپ کی ناکامی کے بعد پی ڈی اے کو جو بڑا منصوبہ ملا ہے اس میں ماضی کی غلطی نہ دہرائی جائے اور لوگوں کو وعدے کے مطابق پلاٹ اور رہائشی سہولیات کو یقینی بنا کر پی ڈی اے اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کا زریں موقع جانے۔
بچوں کیلئے مزید ہسپتال بنانے کی ضرورت
خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں نومولود بچوں کے وارڈ (نرسری) میں گنجائش سے زیادہ مریض بچوں کا داخلہ اور ان کے تیمارداروں کے باعث رش میں اضافہ ایک مستقل مسئلہ ہے، بچوں کو انکیوبیٹر میں رکھنے کے انتظامات ناکافی ہوتے ہیں اور وارڈوں میں ایک ایک بیڈ پر دو دو تین تین بچوں کو ایک ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا رویہ کتنا بھی بہتر ہو اور وہ ہمدردی کیساتھ بچوں کے علاج پر توجہ دیں تب بھی یہ ان کیلئے مشکل بن جاتا ہے کہ وہ بچوں کے علاج پر توجہ دے سکیں، خاص طور پر یہ انفکیشن پھیلنے کا خطرہ اور بچوں کیساتھ ان کی نگہداشت کرنے والوں کے باعث علاج کا ماحول ہی نہیں بن پاتا جو ڈاکٹروں اورمریضوں دونوں ہی کیلئے یکساں مشکلات کا باعث ہے، خصوصاً کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے، ان دنوں تو اس امر کی قطعی گنجائش نہیں لیکن مجبوراً ایسا ہی ہورہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کیلئے صوبائی دارالحکومت میں مزید خصوصی ہسپتال بنائے جائیں اور موجودہ ہسپتالوں میں بچوں کے مزید وارڈ بنائے جائیں۔
پارکنگ کا مسئلہ
لاک ڈاؤن میں نرمی ہوتے ہی شہریوں کا بازاروں کا رخ پارکنگ کے مسائل میں بھی اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ صدر روڈ پر غیرقانونی پارکنگ کی جو تصویر ہمارے اخبار کے صفحہ دو پر شائع ہوئی ہے اس کی مزید تشریح ووضاحت کی ضرورت نہیں۔ کارپارکنگ سٹینڈز میں کورونا سے متعلق حفاظتی تدابیر کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ انتظامیہ کو اس امور پر غور کرنے اور قوانین کے مطابق کارروائی میں نرمی نہیں کرنی چاہئے۔ صوبائی دارالحکومت میں پارکنگ کا مسئلہ روزبروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ صدر روڈ پر غیرقانونی پارکنگ سے صرف نظر اختیار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، خاص طور پر موجودہ حالات میں جہاں ماہرین مناسب فاصلہ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں شہریوں کی جانب سے حفاظتی تدابیر کی دھجیاں اُڑانا اور حکام کو اس کی کھلی چھٹی دینا مجرمانہ غلفت کے زمرے میں آتا ہے جس کی کوئی گنجائش نہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اس مسئلے کا سختی سے نوٹس لیا جائے گا اور صدر روڈ سمیت ہر جگہ احتیاطی تدابیر کیساتھ پارکنگ کے انتظامات پر توجہ دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی