logo 16

مشرقیات

امام اعظم ابو حنیفہ کی ایک بار مدینہ طیبہ میں حاضری کے دوران جب امام باقر سے ملاقات ہوئی تو ان کے ایک ساتھی نے تعارف کرایا کہ یہ امام ابو حنیفہ ہیں۔ امام باقر نے امام اعظم سے کہا: وہ تم ہی ہو جو قیاس سے میرے جد کریمۖ کی احادیث رد کرتے ہو۔ امام اعظم نے فرمایا: اللہ کی پناہ! حدیث کو کون رد کرسکتاہے۔ آپ اجازت دیں تو کچھ عرض کروں۔ اس کے بعد امام اعظم نے عرض کیا: مرد ضعیف ہے یا عورت؟ ارشادفرمایا: عورت۔ عرض کیا وراثت میں مرد کاحصہ زیادہ ہے یا عورت کا؟ فرمایا: مرد کا۔ عرض کیا میں قیاس سے حکم کرتا تو عورت کو مرد کا دو گناہ حصہ دینے کاحکم کرتا’ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔
پھر عرض کیا: نماز افضل ہے یا روزہ؟ ارشاد فرمایا: نماز۔ عرض کیا: قیاس یہ چاہتا ہے کہ جب نماز روزہ سے افضل ہے تو مخصوص ایام میں عورت پر نماز کی قضا بدرجہ اولیٰ ہونی چاہئے۔ اگر احادیث کے خلاف قیاس سے حکم کرتا تو یہ حکم دیتا کہ ایسی عورت نماز کی قضاء ضرور کرے۔ اس پر امام باقر اتنے خوش ہوئے کہ اٹھ کر امام اعظم ابو حنیفہ کی پیشانی چوم لی۔ (نزہتہ القاری 177/1′ مناقب ذہبی’ تبییض الصحیفتہ للسیوطی صفحہ117:)
حضرت ابن عمر بہت بیمار تھے۔ اس حالت میں ان کاجی مچھلی کھانے کو چاہا۔ آپ نے گھر والوں سے کہا: ” میرے لئے مچھلی منگا لیں۔”
مدینہ منورہ میں ان دنوں مچھلی عام نہیں ملتی تھی۔ بہت مشکل سے اور بہت تلاش کے بعد آخر کار ایک مچھلی حاصل کی گئی’ اسے تیار کرکے آپ کے سامنے رکھا گیا۔ ابھی آپ نے کھانا شروع نہیں کیا تھا کہ ایک فقیر ادھر آنکلا۔ اس نے صدا لگائی۔ فقیر کی آواز سن کر آپ نے گھر والوں سے کہا:
” یہ مچھلی اس فقیر کو دے دو۔”
گھر والوں نے کہا: ” یہ مچھلی بہت مشکل سے آپ کے لئے حاصل کی گئی ہے۔ آپ یہ کھالیں۔ ہم فقیر کو اس کی قیمت دے دیتے ہیں۔”
آپ نے فرمایا: ” نہیں! یہ مچھلی ہی فقیر کو دے دو۔”
خادم نے مچھلی فقیر کو دے دی لیکن اس کے پیچھے ہولیا اور کچھ فاصلے پر جاکر وہ مچھلی قیمت دے کر اس سے خرید لی۔ اب مچھلی پھر آپ کے سامنے رکھی گئی۔ ادھر وہ فقیر پھر آگیا اور سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ” یہ مچھلی اسے دے دو”۔
آپ کو بتایاگیا: ” یہ اس سے خریدی گئی ہے۔ لہٰذا آپ کھا لیں۔”
آپ نے فرمایا: ” یہ مچھلی اسے دے دو اور قیمت بھی اس کے پاس رہنے دو۔ کیونکہ میں نے حضور نبی کریمۖ سے سنا ہے کہ جو شخص کھانے کی کسی چیز کو (خاص طور پر جس چیز کی خواہش محسوس ہو رہی ہو) نہیں کھائے گا (یعنی کسی دوسرے کی خاطر اپنی خواہش ترک کردے گا) حق تعالیٰ اسے بخش دے گا۔”
چنانچہ مچھلی پھر اس فقیر کو دے دی گئی۔
( کیمیائے سعادت)

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟