tanveer ahmad 12

صورتحال کی سنگینی کا احساس پیدا کیجئے

کورونا کے حوالے سے بحث مباحثے تو ابھی تک جاری ہیں، کوئی اس صورتحال کی سنگینی کے احساس سے خوفزدہ اور فکرمند ہے اور کسی کو ابھی تک یقین ہی نہیں آرہا کہ کورونا ایک انتہائی خطرناک وائرس ہے اور اب تک دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو بہت تھوڑے عرصے میں موت کے گھاٹ اُتار چکا ہے، وطن عزیز میں بھی صورتحال اب خراب سے خراب تر ہوتی چلی جارہی ہے، عام آدمی کے مسائل کو دیکھتے ہوئے لاک ڈاؤن میں نرمی کا جو فیصلہ کیا گیا تھا وہ عام آدمی ہی کی وجہ سے انتہائی خطرناک ثابت ہورہا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نازک صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی حکومت کی مجبوریوں کو مدنظر رکھا جاتا اور ایس او پیز پر عمل کیا جاتا لیکن یہاں لاک ڈاؤن میں جیسے ہی نرمی کی گئی لوگوں نے بازاروں کا رخ کیا اور عید کیلئے وسیع پیمانے پر خریداریوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا، بازار کھل گئے اور رش بڑھتا گیا جس کا منطقی نتیجہ اب تک سامنے آچکا ہے اس وقت ملک بھر میں ستر ہزار کے قریب کرونا کے مریض موجود ہیں اور یہ وہ مریض ہیں جن کا ٹیسٹ کیا گیا اور جو بغیر ٹیسٹ کے ہیں ان کی تعداد کسی کو بھی نہیں معلوم! اب کل کی تازہ خبر یہ تھی کہ کورونا سے ایک دن میں چھیانوے ریکارڈ اموات ہوئیں، اس وقت تک خیبر پختونخوا میں اس مہلک وبا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد450، سندھ میں427، پنجاب میں410، بلوچستان میں60، اسلام آباد میں23، آزاد کشمیر میں5 اور گلگت بلتستان میں9 ہوگئی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ہم کورونا کے انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور اس وقت ہمارے اردگرد موجود بہت سے لوگ اس کا نشانہ بن چکے ہیں اور ایک تواتر سے روزانہ دو چار سو نئے مریض رپورٹ ہورہے ہیں اس جان لیوا وائرس سے ایک ہی دن میں چار ڈاکٹروں کا جاں بحق ہونا یقینا ایک انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کررہا ہے۔ حکومت کی طرف سے تو بار بار کہا جا رہا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد اس خطرناک وبا سے بچنے کا واحد مؤثر ذریعہ ہے، شہری اس مہلک وبا سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کیلئے احتیاط کریں اور گھروں تک محدود رہیں، ہمارے وزیر اعلیٰ نے بھی عوام سے اپیل کی ہے صوبے میں کورونا بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے، عوام معاملے کی سنگینی کا ادراک کریں لیکن اس سب کچھ کے باوجود صورتحال انتہائی افسوسناک ہے، بازاروں میں اور عوامی مقامات پر رش مسلسل بڑھ رہا ہے اور ہماری غفلت کی وجہ سے اب تک بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ ایک طرف تو یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن یہ مطالبہ کررہی ہے کہ حکومت یکم جون سے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کرے اور اگر یہ اعلان نہ کیا گیا تو وہ ایس او پیز کے تحت خود ہی ادارے کھول دیں گے۔ اس وقت تک ہمارے یہاں کسی بھی جگہ ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، اب بھی مساجد میں نمازیوں کیلئے فاصلے پر کھڑے ہونے کی جگہ لگے ہوئے نشانات موجود ہیں اسی طرح بینکوں میں بھی کسٹمرز کے کھڑے ہونے کی جگہ کی نشاندہی زمین پر نشانات لگا کر کی گئی ہے لیکن کس کو کہہ رہے ہو؟ کوئی بھی ایس او پیز پر عمل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا، جب بڑوں کا یہ حال ہے تو ہم چھوٹے چھوٹے سکول کے معصوم بچوں سے ایس او پیز پر عمل کرنے کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟ اس انتہائی خطرناک صورتحال میں سکول کھولنے کا مطالبہ کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد جو صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے وہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ اب ہم سکول کھولنے کا مطالبہ کرکے ایک اور حماقت کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ اس وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں طلبا وطالبات کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے لیکن اب اس کا کیا علاج کہ یہ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے اور اس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی جان کی حفاظت ہماری سب سے پہلی ترجیح ہے، تعلیم اور دوسرے معاملات پھر بعد میں آتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نے قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے اس اجلاس میں کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات پر غور ہوگا اور اس بات کا فیصلہ بھی کیا جائے گا (باقی صفحہ7بقیہ نمبر3)

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات