editorial 5 5

موج پیاسی ہے اپنے دریا میں

آج ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں جی رہے ہیں، صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے مگر ہم سکرین کے جادو میں گرفتار رہتے ہیں، ہمارا بہت سا وقت سکرین کھا جاتی ہے! ٹی وی، کمپیوٹر، سیل فون، لیپ ٹاپ! یہ سب ہر وقت ہماری دسترس میں ہیں جو جس طرح چاہے انہیں استعمال کرسکتا ہے، فائدہ اُٹھانے والے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور وقت ضائع کرنے والے وقت ضائع کررہے ہیں بس اپنے اپنے ذوق، فکر اور سوچ کی بات ہے اس حوالے سے نہ ختم ہونے والے مباحث بھی چل رہے ہیں لیکن اونٹ کسی کروٹ بیٹھتے نظر نہیں آتا! سب تصاویر کا کھیل ہے ہم دن رات مختلف قسم کی تصاویر دیکھنے میں مگن رہتے ہیں، ان میں ساکن بھی ہوتی ہیں اور متحرک بھی! سب کی اپنی اپنی چھب ہوتی ہے اور اپنا اپنا پیغام! ہر تصویر ایک کہانی سناتی نظر آتی ہے جس طرح الفاظ بولتے ہیں اسی طرح تصویریں بھی زبان حال سے داستان سناتی نظر آتی ہیں۔ اخبار میں روزانہ شائع ہونے والے کارٹون کتنی مکمل کہانی سنا رہے ہوتے ہیں، ایک چھوٹے سے کارٹون کو دیکھ کر فکر کے کتنے دریچے وا ہو جاتے ہیں، بچپن میں ہمارے بڑے بھائی ہمارے سامنے ایک کارٹون رکھ دیتے اور ہم سے پوچھتے کہ یہ کیا کہتا ہے، کونسی کہانی سنارہا ہے؟ ہم بہت مغز ماری کرتے لیکن چھوٹے سے کارٹون میں کہی گئی بات ہمارے پلے نہ پڑتی! وہ جب کارٹون کی وضاحت کرتے تو ہمارے چودہ طبق روشن ہوجاتے! بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک تصویر یا ایک چھوٹی سی ویڈیو اتنا متاثر کرتی ہے اتنا کچھ سکھا دیتی ہے کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تو میں موٹی موٹی کتابیں پڑھ کر بھی نہیں سیکھ سکتا تھا؟ کل ہم نے سوشل میڈیا پر ایک چھوٹی سی خاموش ویڈیو دیکھی جس کے کردار نہیں بولتے صرف پس منظر میں ہلکی پھلکی موسیقی کیساتھ یہ گیت چل رہا ہے: اے دل نادان آرزو کیا ہے؟ جستجو کیا ہے؟ ہم بھٹکتے ہیں کیوں بھٹکتے ہیں دشت وصحرا میں؟ ایسا لگتا ہے موج پیاسی ہے اپنے دریا میں! باپ اپنے گھر کے خوبصورت باغیچے میں پودوں کو پانی دے رہا ہے، مین گیٹ سے دو بچے (ایک تیرہ برس کی بچی اور اس کا سات سالہ بھائی) خوشی خوشی دوڑتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے ہیں دونوں کی پشت پر سکول بیگ ہیں اور ہاتھوں میں اپنا اپنا رزلٹ! ان کے چہروں پر ملکوتی مسکراہٹ کھیل رہی ہے، وہ اپنے بابا کے پاس آکر اسے اپنا رزلٹ بتاتے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بچوں کے نتیجے پر نظر ڈالتا ہے تو اس کے چہرے پر اطمینا ن بھری مسکراہٹ پھیل جاتی ہے، دونوں نے بہت زیادہ نمبر حاصل کرتے ہوئے Aگریڈ حاصل کیا ہے، اپنا نتیجہ بتانے کے بعد بہن چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑے گھر کے اندر چلی جاتی ہے، اگلے منظر میں دونوں بہن بھائی ملکر سکول سے ملا ہوا ہوم ورک کر رہے ہیں بہن اپنی پڑھائی کیساتھ ساتھ چھوٹے بھائی کو بھی پڑھا رہی ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اپنے ہاتھ میں میٹھے چاولوں کی پلیٹ پکڑے اسے چاول کھلارہی ہے، ایک ایک نوالہ بڑی محبت کیساتھ مسکراتے ہوئے اس کے منہ میں ڈالتی چلی جاتی ہے رات کو سونے سے پہلے باپ اپنے بچوں پر ایک نظر ڈالنے ان کی خواب گاہ کے دروازے پر کھڑا ہوکر انہیں دیکھتا ہے، دونوں بڑے سکون سے محوخواب ہوتے ہیں وہ مسکراتے ہوئے کمرے کی لائٹ بجھا کر چلا جاتا ہے۔ اگلی صبح بچوں کے سکول جانے کا منظر ہے، باپ اخبار پڑھ رہا ہے، بیٹا باپ کو چومتا ہے بیٹی باپ کے سامنے کھڑے ہوکر مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلاتی ہے اور پھر اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑے دونوں سکول کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں۔ باپ اسی دن بچوں کے اچھے نمبروں میں پاس ہونے کی خوشی میں اپنی بیٹی کیلئے ایک سیل فون لیکر آتا ہے، بیٹی خوش ہوکرسیل فون کو کھولتی ہے اور پھر اس کی جادوئی دنیا میں کھوجاتی ہے! اگلے منظر میں وہ اپنے ہاتھ میں سیل فون پکڑے چھوٹے بھائی کو میٹھے چاول کھلا رہی ہے، نگاہ سیل فون پر ہے اس لئے نوالہ بھائی کے منہ تک نہیں پہنچ پاتا، ہاتھ ادھر ادھر بھٹکتا ہے پھر وہ غصے کیساتھ پلیٹ رکھ وہاں سے اُٹھ جاتی ہے اور بھائی دیکھتا رہ جاتا ہے! رات کو باپ ان کی خواب گاہ کی طرف آتا ہے دوبجے کا وقت ہے، بیٹی سیل فون کی دنیا میں کھوئی ہوئی ہے اور بیٹا آڑھا ترچھا سو رہا ہے وہ دیوار پر لگے وال کلاک کی طرف غصے سے اشارہ کرتا ہے اور لائٹ آف کرکے چلا جاتا ہے، اگلے دن جب بچے سکول جاتے ہیں تو بیٹا باپ کو چومے بغیر جارہا ہوتا ہے جب باپ بیٹا روز کی طرح بیٹی کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کیساتھ مگن ہوتی ہے، وہ اُداس ہوکر ہاتھ نیچے کر لیتا ہے! بھائی بہن کا ہاتھ پکڑنے کیلئے اپنا ہاتھ آگے کرتا ہے تو بہن اس کی طرف نہیں دیکھ رہی ہوتی وہ اداس ہو کر خاموشی کیساتھ بہن کے پیچھے چل پڑتا ہے! آج پھر رزلٹ کا دن ہے، دونوں بچے سرجھکائے چہروں پر اداسی کی چادر اوڑھے گھر میں داخل ہوتے ہیں، سرجھکائے باپ کو اپنا نتیجہ دکھاتے ہیں دونوں امتحان میں فیل ہوگئے ہیں، باپ بچوں کا رزلٹ دیکھ کر اداس ہوجاتا ہے اور خاموشی سے سرجھکا لیتا ہے! دوسرے دن بچے یونیفارم پہن کر سکول جانے کیلئے جب روانہ ہونے لگتے ہیں تو بیٹی باپ کے پاس آکر ایک لمحے کیلئے رکتی ہے اور اس کے ہاتھ پر اس کا دیا ہوا سیل فون رکھتے ہوئے ایک اداس مسکراہٹ کیساتھ اس کی طرف دیکھتی ہے اور پھر واپس مڑ کر خوشی سے مسکراتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ بچے کے چہرے پر بہن کا ہاتھ پکڑنے کی خوشی قابل دید ہوتی ہے، دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے سکول کی طرف چل پڑتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ