5 93

شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات

عیدالفطر کے دوسرے روز میرعلی کے گاؤں حسوخیل میں تین افراد کسی دوست کو عید ملنے جارہے تھے۔ ان تین افراد میں سے ایک 19گریڈ کے سی ایس ایس افیسر تھے جو اسلام اباد میں پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی کے ڈائریکٹر ہیں، ان کیساتھ ایک ہیلتھ ٹیکنیشن اور ایک تیسرا فرد بھی تھا۔ اپنے اردگرد سے بے خبر عید کی پُررونق ماحول میں یہ تینوں افراد جب حسوخیل کو بیچی روڈ سے ملانے والے بڑے راستے میں پہنچے تو اچانک دو موٹرسائیکل سواروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے ڈائریکٹر پی ایچ اے زبید اللہ سمیت تینوں افراد یعنی نعمت اللہ اور رحمان اللہ موقع پر شہید ہوئے۔ موٹر سائیکل سوار جو بھی تھے غائب ہوگئے اور زبید اللہ سمیت تینوں افراد کو تڑپتے چھوڑ گئے، جس کے بعد پورے علاقے میں ایک سوگ کی سی کیفیت طاری رہی اور کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ عید کی خوشی کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے درجنوں واقعات ہوئے ہیں جن میں ایسے ہی لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور قاتل آسانی سے فرار ہونے میں حسب روایت کامیاب ہو جاتے ہیں، البتہ گریڈ19 کے افیسر کو پہلی بار ٹارگٹ کیا گیا جس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کسی کو بھی ٹارگٹ کرنا اب بہت آسان ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ آئے روز سیکورٹی فورسز کے قافلوں پر حملے، بم دھماکے، ذاتی دشمنیوں میں قتل مقاتلے اور کلہاڑیوں اور چھریوں کا بے دریغ استعمال جیسے واقعات کا تسلسل سے وقوع پذیر ہونا یہاں کے امن وامان کی صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ ابھی اگرچہ سال کا نصف بھی پورا نہیں ہوا اور شمالی وزیرستان میں اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق مختلف واقعات میں 80 کے قریب افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں جن میں ٹارگٹ کلنگ، سیکورٹی فورسز پر حملوں، ذاتی دشمنیوں اور دیگر کئی قسم کے واقعات میں نہ صرف مذکورہ تعداد میں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بلکہ پچاس کے لگ بھگ افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال کسی طور پر بھی اُمیدافزا نہیں بلکہ وزیرستان کے کسی بھی باشندے سے پوچھ لیں، وہ حالات پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرنے میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔ سابقہ ایف سی آر نظام کے برعکس پولیس نظام بھی ان حالات میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے، کہنے کو تو پولیس کا پورا محکمہ موجود ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ ابھی انہیں اس علاقے کو سمجھنے میں وقت لگے گا کیونکہ اب تک کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں پولیس کا نظام اگر مکمل طور پر فیل نہیں ہوا ہے تو کوئی خاص کارنامے بھی سرانجام نہیں دے رہی۔ علاقے کے لوگ خصوصاً یوتھ آف وزیرستان کے نوجوان باربار امن وامان کے حوالے سے دھرنے دے رہے ہیں، عام لوگوں میں مایوسی کی کیفیت پائی جا رہی ہے، خوف ودہشت کی حالت یہ ہے کہ کوئی اپنے علاقے میں جانے کی جرأت نہیں کرسکتا لیکن حیرت ہے کہ امن وامان کیلئے ذمہ دار ادارے اس حوالے سے یا تو مکمل خاموش ہیں اور یا پھر بے بس کیونکہ ابھی تک عوام کو اس حوالے سے کچھ خاص اقدامات نظر نہیں آرہے یا اگر کچھ اقدامات اُٹھائے بھی گئے ہیں تو ان کا بھی چنداں فائدہ نظر نہیں آرہا۔ حسوخیل کے ایک رہائشی نے بتایا کہ جب ڈائریکٹر پی ایچ اے اسلام آباد زبید اللہ داوڑ اور اس کیساتھ دیگر دو افراد کو ٹارگٹ کیا گیا تو اُسی روز شمالی وزیرستان کے تمام افسران جو عید منانے اپنے علاقے میں آئے ہوئے تھے، راتوں رات وزیرستان سے نکل گئے کیونکہ ہر کسی کو زندگی عزیز ہوتی ہے اور ایسے حالات میں جب بے یقینی اور عدم تحفظ اس حد تک پہنچ جائے کہ گریڈ19 کے افیسر اپنے ہی گاؤں میں دن دیہاڑے ٹارگٹ کیا جاتا ہو اور قاتل بحفاظت فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوتے ہوں، تو ایسے میں کون ہوگا جو خود کو خطرے میں ڈال کر اپنے علاقے میں عید منانے کیلئے قیام کرے گا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ شمالی وزیرستان کو راتوں رات سویٹزر لینڈ بنایا جائے کیونکہ یہاں گزشتہ بیس سال سے دہشتگردی کا ناسور پلا بڑھا ہے اور اس کو ختم کرنے کیلئے وقت درکار ہوگا لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کو یقینی بنانا ریاستی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے جس سے صرف نظر کسی طور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد بڑی مشکلوں سے یہاں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ ایک بار پھر امن وامان کے حوالے سے شدید آزمائش کا سامنا ہے، اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا اور ریاستی اداروں خصوصاً پولیس فورس نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں تو وہ وقت دور نہیں جب شمالی وزیرستان سے لوگ نکلنا شروع ہو جائیں گے اور رہی سہی زندگی بھی یہاں مشکلات سے دوچار ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں عوام کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مقامی لوگوں کے تعاون کے بغیر حکومت کچھ بھی نہیں کرسکتی گوکہ یہاں انضمام انضمام کی تکرار ہو رہی ہے لیکن عملی طور پر نظام وہی پرانا چل رہا ہے جس میں سرکار اور عوام کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس کے بغیر حالات کا مثبت رُخ شاید ہی سامنے آسکے۔ علاقے کے عمائدین اور مشران کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ امن وامان کے ذمہ داران کیساتھ مل بیٹھ کر حالات ومسائل کا کوئی مناسب حل تلاش کریں کیونکہ اس طرح یہ نظام چلنے والا نہیں اور حالات یونہی بے قابو رہے تو ایک دن اس پورے نظام کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ازحد ضروری ہے اور یہ تب ممکن ہوگا جب لوگوں میں احساس تحفظ پیدا ہو جائے اور بے یقینی کی موجودہ صورتحال کو ختم کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''