1 139

شہباز شریف کی گرفتاری کیلئے نیب کا ”میلہ”

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا ہے وہ 69سال کی عمر میں کینسر سمیت متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں، کورونا وباء بھی عروج پر ہے، خود نیب کے متعدد افسران واہلکار کورونا میں مبتلا ہیں۔ ان حالات میں نیب میں پیش ہونا خطرے سے خالی نہیں، نیب حکام چاہیں تو سکائپ پر ان سے سوالات کرلیں۔ نیب کے ترجمان کہتے ہیں شہباز شریف کی نیب میں پیشی کیلئے تمام تر حفاظتی انتظامات کر لئے گئے تھے، خصوصاً کورونا کے حوالے سے وضع شدہ طبی اصولوں کی روشنی میں۔ بہرطور قصہ مختصر منگل کو شہباز شریف آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے الزام میں نیب کے بنائے دو مقدمات میں تیسری بار طلبی پر بھی پیش نہیں ہوئے’ 3بجے تک کا مقررہ وقت ختم ہوتے ہی نیب کی ایک ٹیم ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہوئی تاکہ نیب قوانین کے تحت تین بار بلائے جانے پر پیش نہ ہونے کی بدولت گرفتار کر لیا جائے۔ ڈیڑھ پونے دو گھنٹے ماڈل ٹاؤن کے ایچ بلاک میں خوب میلہ لگا، ٹی وی چینل براہ راست میلہ دکھاتے رہے۔ نیب کی ٹیم انہیں گرفتار کرنے میں ناکامی کے بعد واپس روانہ ہوگئی۔ اطلاع یہ تھی کہ نیب کی ٹیم ماڈل ٹاؤن سے جاتی امراء جائے گی اور خیر روانہ بھی ہوئی لیکن پھر ایک ٹیلی فون کال پر جاتی امراء کے راستے سے نیب کے دفتر کی طرف پلٹ گئی۔ آمدنی سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب کے الزامات میں کتنی صداقت اور دونوں کیسوں میں کتنا ”دم” ہے اس پر فی الوقت بحث اُٹھانے کا فائدہ کوئی نہیں۔ ان تمہیدی سطور سے آگے بڑھتے ہیں، منگل کی دوپہر نیب کا شہباز شریف کی گرفتاری کیلئے چھاپہ (جوکہ ناکام رہا) اور پھر نون لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان زبان دانی کا جو لائیو مظاہرہ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ نون لیگ کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب اور پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان دونوں نے جس شیریں کلامی کا مظاہرہ کیا اس نے پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں کی سیاست کی یاد تازہ کردی۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ نیب کی بنیادی کوشش یہ تھی کہ شہباز شریف لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت قبل ازگرفتاری کیلئے دائر اپنی درخواست کی سماعت کے وقت بدھ کو عدالت میں پیش نہ ہوسکیں، عدم پیشی کی وجہ سے ظاہر ہے درخواست قابل سماعت نہیں رہے گی۔ شہباز شریف کیلئے بہرصورت خود کو محفوظ رکھنا ضروری تھا اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ کیا چھاپہ کے وقت وہ واقعی اپنی رہائش گاہ پر موجود نہیں تھے؟ اس کا تسلی بخش جواب تو انہیں فراہم کی گئی سرکاری سیکورٹی کے انچارج سے دریافت کیا جاسکتا تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نیب کے چھاپہ سے پہلے دوپہر ایک بجے سیکورٹی کیلئے مامور اس عملے کو کس نے ہدایت کی کہ وہ وہاں سے چلے جائیں؟ اس سوال کا جواب مل جائے تو نہ صرف صورتحال واضح ہو سکتی ہے بلکہ نیب کی نوٹنکی سے بھی پردہ اُٹھ سکتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ لیڈی اہلکاروں کے ہوتے ہوئے بھی جب تلاشی کیلئے رہائش گاہ کے زنانہ حصے کی طرف نہیں جانے دیا گیا تو یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ شہباز شریف گھر پر موجود نہیں۔ یہاں پھر وہی بالائی سطور والی بات دہراؤں گا سرکاری سیکورٹی کا عملہ اگر ” کسی” نے واپس نہیں بلایا تھا تو نیب حکام اس کے انچارج سے پوچھ سکتے تھے کہ شہباز شریف کہاں ہیں، جو بھی گڑ بڑھ گھٹالہ ہے وہ اسی میں ہے۔ سیکورٹی عملے کی عدم موجودگی’ رہائش گاہ کے خواتین والے حصے کی طرف جانے کی اجازت نہ ملنا’ نیب ٹیم کا جاتی امراء جانے کا اعلان اور پھر راستے سے پلٹ کر دفتر چلے جانا’ یہاں دو سوال بنتے ہیں، اولاً یہ کہ سیکورٹی عملے کو جائے تعیناتی سے کس نے ہٹایا’ ثانیاً یہ کہ شہباز شریف کے گھر میں موجود نیب کی ٹیم کو فون کرکے کس نے زنان خانے اور دفتر کیلئے استعمال ہونے والے دو عقبی کمروں کی تلاشی سے منع کیا اور نیب کی ٹیم جاتی امراء کے راستے سے پلٹ کیوں گئی؟۔
ان سوالوں میں ہی منگل کی دوپہر شہباز شریف کے گھر کے باہر لگے میلے کی اصل کہانی چھپی ہوئی ہے۔ دوسری بات جو قبل ازیں مختصراً عرض کی وہ یہ ہے کہ ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کے اس میلے کے دوران نون لیگ اور پنجاب حکومت کے ترجمانوں نے جو زبان ایک دوسرے کیلئے استعمال کی کیا وہ درست تھی؟ سیاسی اخلاقیات اور تہذیبی روایات سے یکسر عاری اس زبان دانی پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے لیکن اس کا کیا کریں کہ ہماری مروجہ سیاست کا خمیر اسی بدزبانی سے گندھا ہوا ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کورونا وباء کے پھیلاؤ اور دوسرے مسائل سے نمٹ لیا گیا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کا محاذ فتح کرنا ضروری تھا؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ شہباز شریف جیسے یا کم وسنگین الزامات تو خود تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں بلکہ حاضرسروس وزراء پر بھی ہیں۔ نیب نے ایسی پھرتیاں کبھی ان کے حوالے سے کیوں نہیں دکھائیں؟ کیا کوئی ایسا بحران یا قانونی ضرورت تھی کہ شہباز شریف کی گرفتاری ضروری تھی۔ پتہ نہیں کورونا سے پیدا ہوئے سنگین مسائل کے دوران سیاسی کڑی کو ”ابالے” دینے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ قوانین کا اطلاق یکساں ہو رہا ہو تو کسی کو اعتراض کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ یہاں مسئلہ یہ بن گیا ہے معاملات نیب کے پاس ہیں اور وزراء گرفتاریوں کی تاریخیں بتا رہے ہوتے ہیں۔ اس طور اگر حزب اختلاف اور سیاسی تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ نیب کی کارروائیاں آزادانہ نہیں بلکہ حکومتی خواہشات کے تابع ہیں تو اس پر منہ بنانے کی ضرورت نہیں، ثانیاً یہ کہ سیاسی اختلافات کے اظہار کیلئے وہ زبان استعمال کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے جس سے گھٹن بڑھے۔ حرف آخر یہ ہے کہ وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کو بھی گفتگو میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگلے روز انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک جج کیلئے جو زبان استعمال کی وہ افسوسناک ہے۔ گنگا نہائے ہوئے شہزاد اکبر بھی نہیں ہیں اور نا وہ کوئی خدائی فوجدار، اخلاق کا دامن تھامے رہیں۔ پس نوشت، لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی17جون تک عبوری ضمانت منظور کرلی ہے۔

مزید پڑھیں:  صحت کارڈکے شفاف استعمال بارے اچھی کوشش