p613 19

مافیاکو لگام دیا جائے

نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے ایک بار پھر پیٹرول کی قلت پیدا کرنے کے بعد پی ایس او کے پمپوں پر قطاریں لگ گئیں۔ شہری کہتے ہیں پیٹرول سستا ہو گیا لیکن اب پٹرول تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔پیٹرول سستا ہوتے ہی عوام کیلئے نایاب، شہر میں پیٹرول کی قلت سر اُٹھانے لگی۔ نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر حکومتی چیک اینڈ بیلنس ختم ہو گیا ہے شہر کے بیشتر پمپس پر پیٹرول کی فروخت معطل ہو کر رہ گئی۔شہریوں کا کہنا ہے کہ پیٹرول سستا ہوتے ہی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ حکومت پیٹرول کی دستیابی کو یقینی بنائے اورقلت پیدا کرنے والوں کو کنٹرول کرے۔قیمتوں میں کمی کے باوجود کرایوں میں کمی نہ لائی جا سکی۔ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے نہ تو پیٹرول پمپ کو کھولنے کے حوالے سے اقدامات دیکھنے کو ملے اور نہ ہی کرایوں میں کمی کو ممکن بنایا جاسکا، پشاور میں دوسرے دن بھی پیٹرول پمپ مالکان نے پمپ بند رکھے۔تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث مقررہ سٹاک رکھنے کی خلاف ورزی اور پیٹرول نہ ہونے کا بہانہ کر کے تیل مہنگے داموں فروخت کا طریقہ اسی ماہ کے دوران دو سے زائد مرتبہ اختیار کیا گیا، عوام کی مشکلات اورپیٹرول پمپ مالکان کی من مانیوں کی روک تھام کیلئے اوگرا اپنی ذمہ داریوں میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے بساط بھر چھاپے مارے اورکارروائی کی مگر یہ کافی ثابت نہ ہوا جس کے باعث عوام پیٹرول کے حصول کیلئے خوار ہوتے رہے اور کاروبار حیات کی گاڑی کا پہیہ رک گیا ہے۔توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود کرایوںمیں کمی نہیں آئی بلکہ ٹرانسپورٹرز کرایوں میں اضافہ کر کے لاک ڈائون کی کسر نکالنے لگے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں منی بس کا کم سے کم کرایہ بیس روپے وصول کیا جارہا ہے جبکہ بین الاضلاع ٹرانسپورٹ کے کرایہ بھی اضافی اور من مانے ہیں۔صوبائی دارالحکومت میں ایک ہی دن آٹا کی قیمتوں کو پر لگنا اور پیٹرول کا بحران اس امر پر دال ہے کہ حکومت مافیا کو لگام دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔اس صورتحال کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا جائے اور آئندہ کیلئے ایسے اقدامات یقینی بنائے جائیں کہ مافیا کھل کرنہ کھیل سکے۔
تحقیقات کے بعد تحقیقات، جزا وسزا کب؟
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 1985 سے لیکر اب تک تمام شوگرملوں کاآڈٹ کرنے کا فیصلہ عملی طور پر احتساب کے ضمن میں اہم پیشرفت اس وقت ہوگی جب چینی سکینڈل کی ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق کارروائی شروع ہو اور اس کیساتھ ہی ماضی کا حساب لیا جائے۔ایسا نہ ہو کہ حکومت تحقیقات کی بھول بھلیوں ہی میں کھو کر رہ جائے اور مافیا دندناتا پھرے۔ قبل ازیں چیئرمین نیب آٹا اور چینی سکینڈل کا نیب کا نوٹس اور ایک ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کر چکے ہیں اور چینی سکینڈل کی پہلی ودوسری رپورٹ کے بعد اس حوالے سے کوئی ٹھوس پیشرفت نظر نہیں آتی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیئرمین نیب نے چینی آٹا بحران کو بجا طور پر پرائم میگا سکینڈل کا نام دیا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت اور اس کے اتحادی جماعت نے اُٹھایا تھا۔ رپورٹ آنے کے بعداس کے فرانزک آڈٹ اور مزید چھان بین کے اعلان پر حزب اختلاف نے الزم لگایا تھا کہ اتنے بڑے سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے باوجود حکومتی اراکین کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا ہے جبکہ اپوزیشن کیخلاف ابتدائی تحقیقات پر ہی ایکشن لیا جاتا ہے۔ نیب اور ایف آئی اے کو جو نیا ٹاسک ملا ہے اس سے توقعات کی وابستگی اس وقت ہی ممکن ہے جب معاملات گھوم پھر کر تحقیقات اور مزید تحقیقات در حقیقت آگے بڑھیں گے۔ اعلیٰ ترین سطح پر نوٹس لینے اور چینی سکینڈل کے مبینہ طور بے نقاب ہونے کے باوجود مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں عدم کمی پر بھی سوالات اُٹھنا فطری امر ہے۔حکومت جو بھی فیصلہ کرے اس کے قلیل المدت اور فوری نتائج سامنے آنے چاہئیں ساتھ ساتھ جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ محض فیصلہ نہ ہو بلکہ اس سے عوامی مفادات کا تحفظ اور بدعنوانی ولوٹ مار کے ذمہ دار عناصر کو بلا تخصیص سزا بھی ملے۔
کورونا کے ساتھ معیشت کا پہیہ بھی چلانے کی سعی
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی روشنی میں صوبے میں کاروباری سرگرمیوں، بازاروں اور دکانوں کوایس او پیز کے تحت صبح سے لیکر شام 7 بجے تک کھلا رکھنے کافیصلہ اور تین دن کی بجائے صرف دو دن یعنی ہفتہ اور اتوار کولاک ڈائون ۔ ایس او پیز کے تحت بین الاضلاع ٹریفک کوبھی کھولنے پر غورہورہا ہے جبکہ سیاحت کے شعبے کو کھولنے کیلئے بھی ایس او پیز کی تیاری حکومتی سنجیدگی کے امور ہیں لیکن عوام کا احتیاطی تدابیر کی سرے سے پابندی نہ کرنے کا اقدام اس سارے عمل پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے۔حکومت کورونا سے احتیاط اور معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کی سعی میں ہے جس کی ضرورت واہمیت سے انکار ممکن نہیں، ساتھ ہی ساتھ حفاظتی تدابیر کم ازکم ماسک کی پابندی کرنا اور کرانا یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ کورونا سے اموات کی شرح میں اچانک جس طرح اضافہ ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، صرف مشیر اطلاعات کی یہ تنہا ذمہ داری نہیں کہ وہ ایس او پیز پر پابندی کی صورتحال کا جائزہ لے، صوبائی وزرائ،مشیروں، معاونین خصوصی، اراکین پارلیمان، اعلیٰ انتظامی افسران اور سینئر پولیس حکام کو بھی زحمت کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن