2 194

نئی گریٹ گیم کے اُبھرتے خدوخال

چین اور بھارت کے اختلافات اب سرحدی کھینچاتانی تک محدود نہیں، سٹریٹجک میدانوں تک وسیع ہو چکے ہیں۔ دھرمسالہ میں قائم دلائی لامہ کی سربراہی میں تبت کی جلاوطن حکومت کے بعد سی پیک کی اندھی مخالفت نے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کو کشیدگی سے بھردیا ہے۔ بھارت علاقائی ملکوں میں چین کے اثر ورسوخ سے خوف کھانے کے علاوہ اس کی تجارت کو بھی حسد کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کا سب سے توانا مخالف چین ہے اور یہ بات بھی بھارت کو کھٹک رہی ہے۔ 2012 میں پہلی بار بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا کہ لداخ کے علاقے میں چینی فوج نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو عبور کرنے کو معمول بنا لیا ہے اور پیپلز لبریشن آرمی بہت آہستہ روی کیساتھ ان علاقوں میں پیش قدمی کر رہی ہے۔ بھارتی میڈیا کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال میں چینی فوج نے 600مرتبہ سرحد عبور کی۔ بیجنگ نے ہمیشہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف ورزی کی خبروں کی تردید کی۔2017 میں بھوٹان کے قریب ڈوکلام کے علاقے میں دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں، ہاتھا پائی ہوئی، کشیدگی کا یہ سلسلہ تہتر روز تک جاری رہا۔ خطے پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہے، یہاں تک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر ژیجن پنگ نے چین کے شہر ووہان میں ملاقات کرکے کشیدگی کے اس دور کو ختم کیا۔ پانچ اگست کو بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت کو آن واحد میں ختم کردیا۔ ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر یونین علاقوں کا درجہ دیدیا۔ کشمیر کی نمائشی داخلی خودمختاری ختم ہو کر رہ گئی۔ یہ پاکستان کیساتھ تمام رابط وتعلق ختم کرنے کا حتمی فیصلہ تو تھا ہی چین کو بھی للکارنے کا انداز تھا۔ پانچ اگست کے فیصلے کے حکمت کار بھارت کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میںتقریر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ریاست جموں وکشمیر کے بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور اکسائے چن بھی ہوتا ہے۔ اکسائی چن ریاست جموں وکشمیر کا وہ علاقہ ہے جو پاکستان نے ایک معاہدے کے تحت چین کے کنٹرول میں دیا ہے اور اس معاہدے میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ کشمیر کے حتمی فیصلے کے وقت ان علاقوں کے مستقبل کا بھی تعین کیا جائے گا، گویاکہ چین اور پاکستان دونوں اکسائی چن کو باقی ریاست کی طرح متنازعہ سمجھتے ہیں۔ پانچ اگست کے بعد بھارت نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کی دھمکیوں میں شدت پیدا کی۔ یہ اکسائی چن کے حوالے سے چین کیلئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اکسائی چن سے چین کے دواہم حصوں کو ملانے والی قومی شاہراہ بھی گزرتی ہے اور یہی علاقہ چین کی ایک وسیع دنیا میں کھلنے والی کھڑکی اور مستقبل کے پوشیدہ امکانات کا جہان ہے۔ یہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منبع ہے۔ اس سے پہلے کہ بھارت کوئی مہم جوئی کرتا چین نے گیلوان وادی میں پیش قدمی کرکے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی۔ اس دوران بھارت نے چین کی جنوب مشرق کی طرف سے چین کی کلائی مروڑنے کیلئے تائیوان میں بغاوت کے شعلوں کو ہوا دینا شروع کی۔ تائیوان میں بھارتی مداخلت کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کی برتری کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی ہے۔ چین کیخلاف امریکی حکمت عملی اور اس میں بھارت کے بروئے کار لانے کی اس حکمت عملی کو امریکہ کے سابق نیول چیف جیمز سٹروائیڈرس نے یوں بیان کیا ہے۔ چین کیخلاف امریکہ کی وسیع تر حکمت عملی کو بیان کرتے ہوئے امریکی نیول چیف نے براہ راست تصادم یا کوئی سردجنگ چھیڑنے کی بجائے چین کے گرد دوستوں اور اتحادیوں کا ایک حصار قائم کرنے کی بات کی ہے۔ یہ ایک طرح کی پراکسی جنگ ہے جو چھپ چھپا کر وار کرنے کے تصور کے گرد گھومتی ہے گویاکہ امریکہ کے سابق نیول چیف بتا رہے ہیں چین کے گھیراؤ میں خطے میں قائدانہ رول بھارت کا ہوگا اور دوسرے ممالک اسے بخوشی قبول بھی کریں گے۔ ساتھ ہی وہ کہہ رہے ہیں کہ دہلی کو چین پر واضح کرنا چاہئے کہ ہمارے ساتھ یہاں (لداخ میں) مت چھیڑو ہم تمہارے ساتھ وہاں (جنوبی چین کے سمندروںمیں) نہیں چھیڑیں گے۔ چین نے گلوان وادی میں کارروائی کرنے میں پہل کر کے بھارت کو لداخ کے راستے گلگت بلتستان کی طرف پیش قدمی میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے جس طرح پاکستان نے نصر میزائل بنا کر بھارت کے آپریشن کولڈ سٹارٹ کے تصور کو کتابوں میں ہی دفن کر دیا تھا اسی طرح چین نے لداخ میں سٹریٹجک لحاظ سے اہم ترین علاقوں پر پیش قدمی کرکے سی پیک کو جڑ سے اکھاڑنے کے منصوبے کو عمل سے پہلے ہی ناکام بنا دیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی فوجی سربراہوں اور مشیر قومی سلامتی اجیت دووال سمیت کئی اہم افراد سے ملاقاتیں کر کے صورتحال کا جائزہ لے چکے ہیں۔ چینی صدر ژی جن پنگ پیپلز لبریشن آرمی کو جنگ کیلئے تیار رہنے کا حکم دے چکے ہیں۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا ماحول بنتا جا رہا ہے۔ اگر ایشیا کی دوایٹمی طاقتوں کے درمیان کوئی تصادم ہوتا ہے تو یہ صرف دوملکوں کا تنازعہ رہے گا نہ اس کے اثرات دو ملکوں تک محدود رہیں گے۔ اس کے فوجی اور اقتصادی اثرات سے پورا خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس سے پورے خطے میں پیداواری صلاحیت اور شرح نمو بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  گھاس کھاتا فلسطینی بچہ کیا کہتا ہے؟